جمعرات‘ 16؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 20؍ جون 2019ء
انگلینڈ نے افغانستان کو ورلڈ کپ سے باہر کر دیا
انگلینڈ کے ہاتھوں چھکوں کی برسات میں افغانستان کی ورلڈ کپ میلے سے واپسی کا اہتمام ہوا۔ اس کا سب سے زیادہ دکھ ہمیں ہے۔ کیونکہ افغانستان کی وجہ سے ہماری تھوڑی بہت شرم رہ گئی تھی پردہ رہ گیا تھا۔ اب افغانستان کے جانے کے بعد شومئی قسمت اور کھلاڑیوں کی بدتر کارکردگی کی بدولت وہ بھی اٹھ گیا اور ہم پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخری درجہ یا نمبر پر آ گئے ہیں۔ جسے دل جلے سب سے آخر میں سرفہرست کا نام دے کر اپنا دل خوش کرتے پھرتے ہیں۔ بقول شاعر…’’عاصیوں کے زمرے میں‘ میں برگزیدہ ہوں،، بے شک آج تک اس دنیا میں جو بھی آگے بڑھا ہے وہ نیچے سے ہی اوپر چڑھا ہے۔ کرکٹ کی دنیا کے اس میلے میں ہمیشہ اوپر سے نیچے آنے والے کو میلہ چھوڑ کرجانا پڑتا ہے۔ سو اب افغانستان کے بعد سب کی نظریں ہم پر ٹکی ہیں کہ ہم کب واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ اب بھی بہت سے کھلاڑی اور مبصرین ہماری ٹیم کو لفظوں اور نمبروں کے چکروں میں اُلجھا کر پانسہ پلٹنے کی طفل تسلیاں دے رہے ہیں مگر حقیقت سب کے سامنے ہے۔
معجزات اب رونما نہیں ہوتے۔ پھر بھی دعا ہے ہم ایک آدھ اور میچ ہی جیت لیں تو یہی ہماری بڑی کامیابی ہو گی اور ٹیم واپسی پر کسی کو منہ دکھا سکے گی۔ ورنہ عوام تو ان کے استقبال کے لیے بھرپور تیاری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے شاید یہ کھلاڑی چھپ چھپ کروطن واپس آنے کو ترجیح دیں۔
٭٭٭٭
قومی اسمبلی میں کٹے کٹیوں اور مرغوں مرغیوں کا تذکرہ
گزشتہ روز سینٹ میں بھی قومی اسمبلی والا ماحول پیدا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ چیئرمین سینٹ کی برہمی ان کی ذہنی کیفیت کی عکاس نظر آ رہی تھی۔ جہاں اپوزیشن مضبوط ہو اور چیئرمین کیخلاف صف آرا ہو رہی ہو تو ایسے ایوان میں چیئرمین کی برہمی کچھ عجب نہیں۔ اس تنائو کے ماحول میں جاوید عباسی نے جب ملکی معیشت کے حوالے سے کٹے کٹیوں، مرغ اور مرغیوں کا تذکرہ کیا تو ارکان سینٹ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ان جانوروں کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ان کے کردار کا اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں تذکرہ ہو رہا ہے…؎
گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
گزشتہ روز میاں شہباز شریف نے بھی قومی اسمبلی میں بجٹ کے حوالے سے میں اپنی تقریر میں ان معصوم جانوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت پر معاشی مسائل حل کرنے کی بجائے مرغیوں اور کٹوں کی افزائش کی پھبتی کسی اس سے کہیں یہ جانور ناراض نہ ہو جائیں۔ غریبوں کیلئے خود کفالت پروگرام کے تحت اگر غریب آدمی مرغیاں اور بھینس پال لے تو ملکی معیشت نہ سہی کم از کم وہ اپنی معاشی حالت ہی بہتر بنا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بہت جلد پورا ملک مرغیاں اور بھینسیں پالنے میں جُت جائے گا۔ اور کوئی کام تو رہے گا نہیں کرنے والا۔
٭٭٭٭
ایم کیو ایم کو ایک اور وزارت مل گئی
ہر حکومت میں شامل ہو کر اقتدار کا مزہ لوٹنے کا فن گرچہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر اس میں یکتا ایم کیو ایم والے ہیں جو بزعم خویش اپوزیشن ہونے کا ناٹک بھی رچاتے ہیں اور وزارتوں کی نوٹنکی میں بھرپور حصہ بھی لیتے ہیں۔ آج کل بجٹ کا موسم ہے حکومت کو یہ بجٹ ہر صورت قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروانا ہے۔ چنانچہ اس کمائی کے موسم میں ایم کیو ایم کا نصیب ایک بار پھر کھل گیا ہے اور اسکی مشکوک حرکات دیکھ کر حکمرانوں نے فوری طور پر اس کا سدباب بھی کر لیا ہے۔ اب ایم کیو ایم والوں کو اسی ضمن میں ایک وزارت اور دی جا رہی ہے تاکہ وہ حکومتی چھابے سے باہر نہ کھسک سکے۔ یہی کام ق لیگ والوں نے بھی کرنے کی کوشش کی مگر حکومتی ارکان فوری حرکت میں آئے اور چند ملاقاتوں میں ق لیگ کی حرکت منجمد شمالی کی طرح جامد ہو گئی اور اب وہاں کسی طوفانی لہر اٹھنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہ سکون وہاں کن بنیادوں پر آیا اس کا جواب حکومت یا خود ق لیگ والے دے سکتے ہیں کہ باہمی اتحاد کی قیمت کس نے کیا ادا کی اور کس نے کیا وصول کی۔ یہ سیاست کا بازار ہے یہاں ہمیشہ سودا نقد ہی بکتا ہے۔ ادھار کا اس بازار میں گزر تک نہیں ہوتا۔ ہر چیز یہاں بکتی ہے اس لیے ’’آپ فرمائیں کیا خریدیں گے،،
٭٭٭٭
اپوزیشن کی آصف زرداری ، سعد رفیق اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی ضد
اپوزیشن کو محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا بخار نجانے کیوں چڑھ گیا ہے۔ آصف علی زرداری ، خواجہ سعد رفیق تو چاہے جیسے بھی ہوں، اول تا آخر پاکستانی ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے لوگوںکے لیے جو کھلم کھلا ریاست اور اس کے تحفظ کے ذمہ دار اداروں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ اِدھر اُدھر ہم ایک ہیں کی ہزیان میں مبتلا ہیں‘ ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ ان کو پارلیمنٹ میں لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرانے کی اپوزیشن کیوں فکر لاحق ہے۔ اگر کوئی مجرم رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو کوئی غدار کیسے ایوان کا ممبر بن سکتا ہے۔ پی ٹی ایم والے منظور پشتین کے ان دونوں ساتھیوں اور گلالئی اسماعیل کے اندروں و بیرون ملک کرتوت کسی سے چھپے نہیں۔ ان کے لئے اپوزیشن کے پہلو میں درد کیوں اٹھ رہا ہے۔ کیا اس طرح اپوزیشن کی اپنی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھیں گے۔ سیاست میں اختلاف برحق مگر ملک و قوم کے دشمن سے محبت کی کوئی راہ نہیں۔ کبھی کبھی پرائی آگ سے بھی دامن جل جاتا ہے۔ اس لیے ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیٹر تو،،
٭٭٭٭