دفاع پاکستان کے حوالے سے لب کشائی کرتے ہوئے لیاقت علی خان کے آہنی مکے سے لیکر فرعون کی رسیوں کو نگلتے ہوئے عصائے موسیٰ تک کی تاریخ حریت میرے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے۔ شہیدوں‘ غازیوں‘ مجاہدوں کی سرزمین میں بدروحنین کے معرکے نصب العین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو مجبور و محکوم قوم اور ملت تصور کیا جاتا تھا۔ انگریزی استعمار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد بتوں کے پجاری اور مسلمانان برصغیر کو غلامی اپنا مقدر لگ رہی تھی اور ان کے ذہنوں کی زمینیں بنجر اور فعال قلب و تفکر بانجھ ہو رہے تھے۔ ظلم و بربریت‘ وحشت اور تشدد کی انمٹ داستانوں کے باوجود آج ہم ایک آزاد دھرتی پہ کھڑے ہیں۔ آزاد قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کی روایات کے امین ہیں۔ ہمارا عزم ہماری روشنی ہے۔ ہماری عزت ہمارا اجالا ہے‘ ہماری آزادی ہماری ضیاء ہے‘ ہماری جرأت ہماری تنویر ہے اور ایمان ان سب کا مرکز ہے۔ اپنے یقین محکم‘ ایمان اور اتحاد کے جذبے کے ساتھ ہم نے پانچ گنا بڑی طاقت کو بھی اس طرح کچلا ہوا ہے کہ دشمن کے آہنی ہونے کا غرور چکنا چور ہو جاتا تھا۔ آزادی کا حصول کسی صورت بھی ایک آسان راستہ نہیں اور جب کسی قوم کا مقابلہ ہندو انگریز استعمار سے ہو تو منزل کٹھن ہو جاتی ہے۔ انہی کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں اور جب قوم کی رگوں میں شہیدوں اور غازیوں کا خون گردش کرتا ہو تو اس سے دشمنوں کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہونے 72 سالوں میں ہمارے دشمنوں نے ہمیں کمزور کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں گنوایا چاہے 1965اور 71کے پاک بھارت معرکے ہوں یا اقتصادی طور پر ہمیں کمزور کرنے کی سازشیں اور دہشت گردی جیسی لعنت ان تمام موقعوں پر ہمارے دشمنوں نے ہمیشہ بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے مگر الحمد اللہ ہماری بہادر افواج نے قوم کے ساتھ ملکر دشمن کی ہر کوشش کو ناکام بنایا ہے بحرحال اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہم اندرونی طور پر بہت سارے مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے آزادی کے وہ ثمرات نہیں پا سکے جن کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا اور بہت ساری اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے دشمن کی کوششیں کامیاب ہوتی رہیں۔ پاکستانی افواج دشمن کی ہر سازش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ہماری افواج اور سکیورٹی کے دوسرے اداروں نے جس طرح اس ہولناک جنگ کا نہ صرف مقابلہ کیا ہے بلکہ بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اسکی مثال انسانی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے اور یہی ہماری بحیثیت قوم عزم ولولے کی ایک زندہ مثال ہے۔اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تاریخ جب اپنے آپکو دہرائے اور مسلمانوں کی فتوحات‘ قربانیوں اور سپہ سالارانہ طاقت کو اسی سج دھج اور عزم و استقلال کے ساتھ ہم نے مورخ کے قلم کی نذر کرنا ہے یا پھر اپنے آپ کو ایک تباہ حال پسماندہ اور غلام قوم کے طور پر۔ وطن عزیز کی مٹی کے ایک ایک ذرے کے قرضدار ہیں ہم۔ وطن عزیز کی عطا کی گئی اس پہلی ایک رات کا قرض ہے ہم پر جب ہم بے یارو مددگار 1947ء میں یہاں پہنچے تو اس پہلی آزادی کی رات میں پتھریلی زمین، ننگے فرش کچی مٹی اور ریت کے جلتے ٹیلوں پر بھی وطن عزیز نے ہمیں سکون کی وہ نیند عطا کی جو ماں کی گود میں آتی ہے۔ پاکستان اسلام کا وہ آہنی قلعہ ہے جس کو صہیونی اور استعماری طاقتوں کی بارودی سازشوں سے بھی گزند نہیں پہنچ سکتی۔ ہمارے قائداعظم نے لاالہ کے اصلی ماخذ کو سمجھ کر کرہ ارض پر پاکستان کا حقیقی وجود کھڑا کر دیا اور اس کو لسانی، صوبائی تعصبات، طبقوں، ذاتوں اور صوبوں کی قید سے آزاد مستحکم، فلاحی اور اسلامی ریاست بنا ڈالا۔ پاکستان کا قیام سچے مسلمان کی پہچان کا علمبردار ہے! اس سے پہلے جا بے جا بکھرے ہوئے، مزدور، غریب، لاغر، بے روزگار غیر محفوظ مسلمان غلامی کی طرف آہستہ آہستہ دھکیلے جانے کی سازشوں کا شکار ہو رہے تھے مگر دشمن آستین کا سانپ بن کر بھی ناکام رہا۔ اس لئے کہ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی مسلمان ایک تھے۔ اکٹھے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے، اکٹھے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے اور سب ایک علَم کے نیچے کھڑے ہونے کو بے چین اور اللہ کی طرف سے بھیجے جانے والے رہبر و رہنما کے منتظر تھے اور جب قائداعظم محمد علی جناح، مادر ملت فاطمہ جناح اور علامہ اقبال جیسے رہنماوں نے اپنی اپنی آواز و انداز میں پاکستان کا نعرہ لگایا تو یہ بے چین مسلمان تڑپ کر آگے بڑھے اور لبیک کہتے ہوئے جانوں کا نذرانہ، مال کی قربانی، جگر گوشوں کا لہو سرزمین پاک کی آبیاری کے لئے پیش کرتے رہے۔ پاکستان ہم سے نہیں ہے ہم پاکستان سے ہیں۔ پاکستان تو ایک کائنات ہے جس میں جواں حوصلے، پختہ ارادے، جذبہ وطنیت، بلند کردار و اوصاف سے بہرہ ور مسلمان، خوددار اور جذبہ شہادت سے معمور جوان، بوڑھے، بچے اور عورتیں ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024