انسانیت کی تذلیل کیوں؟
اہل عقل کے لیے ماں کے پیٹ میں ایک نطفہ سے انسان کی پیدائش قدرت الٰہی کا ایک معجزہ ہے جوکہ اِس دھرتی پر روزانہ بمطابق یونیسف تین لاکھ 53ہزارسے زائد مرتبہ رونماہو کر وجود خالق کائنات کی تصدیق کرتا ہے۔ قدرت کے اِس مظہرنومولود کی پیدائش کو باعزت طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا انسانوں پر فرض ہے ۔بچے کی پیدائش میں قدرت کے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ مگر صد افسوس معاشرتی بے حسی اور انسانیت کی عدم توقیر ی کی بنا پر یہاں حاملہ مائوںکو باعزت طریقے سے ہسپتالوں میں زچگی کی سہولت تک میسر نہیں۔ ہر ہفتہ دو ہفتہ بعد ایک بریکنگ نیوز پڑھنے کو ملتی ہے کہ پاکستان کے فلاں ہسپتال کے گیٹ کے باہر سڑک پر یا برآمد ہ میںیا پھر کسی درخت ، جھاڑی کی آڑ میں کسی ماں نے سرعام بے بسی اور بے پردگی میںنومولو د بچہ کو زمین پر جنم دیا ہے۔8جون 2018کو ایک مرتبہ پھر ٹیچنگ ہسپتال ڈی جی خان میں بعض مسیحائوں کی پیشہ وارانہ غفلت کی بناپر ایک ماں نے بچے کو گائنی وارڈ کے باہر مین گیٹ سے ملحقہ سٹرک پر جنم دیا تو مریضہ کے لواحقین نے انسانیت کی اِس تذلیل پر بھر پور احتجاج کیا۔ میڈ یا کی بروقت توجہ کی بناپر ہسپتال انتظامیہ کی نااہلیت اور بے حسی بے نقاب ہوئی۔ سٹرک پر پڑے نومولود کی تصاویر اور لواحقین کی چیخ و پکار کی ویڈیوجب منظر عام پر آئیں تو ہسپتال انتظامیہ کو ہو ش آیا ۔ وہ لیڈی ڈاکٹرز جو گائنی وارڈ سے غائب تھیں وہ فوری طور پر چپکے سے وارڈ پہنچیں۔مریضہ کو Primary postpartum haemorrhage(PPH) کی ڈرامہ بازی پر دوبارہ گائنی وارڈ میں لے جایا گیا۔ اور پھر حسب معمول معاملہ کو دبانے کے لیے واقعہ کی تحقیقات کے لیے پانچ ڈاکٹرز پر مشتمل انکوئری کمیٹی بنا دی گئی۔ واقعہ میںقصور وار سات ہم پیشہ ڈاکٹرز صاحبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اِس کمیٹی نے جو رپورٹ پرنسپل غازی خان میڈیکل کالج کو پیش کی ہے وہ انسانیت کے ساتھ ایک بھیانک مذاق سے کم نہیں۔صد افسوس خوفِ خدا سے زیادہ ہم پیشہ ڈاکٹرز کی ناراضگی کے خوف کی بناپر ــ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ 40کلومیٹر دور کی مسافت بستی شیرو سے زچگی(ڈلیوری) کرانے کے لیے آنے والی مریضہ تو اِس اُمید پرشہر کے بڑے ہسپتال آئی تھی کہ اِس کی زچگی باعزت، محفوظ اور سہل انداز میں پردہ داری میں ہو جائے گی۔ اُسے اگر خبر ہوتی کہ اُس نے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے سامنے سٹرک پر اپنے بچے کو جنم دینا ہے تو وہ شائد اپنے گائوںمیں ہی کسی اَن پڑھ دائی سے زچگی کرا لیتی ۔ کم ازکم یوں بے عزت تو نہ ہوتی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بچے کی پوزیشن Breach of footling type تھی ۔ مریضہ کا سی سیکشن تجویز کیا گیا۔ لواحقین کو خون کے بندوبست کا کہا گیا ۔ رات 11بجے بستر پر مریضہ کو موجود نہ پایا گیا تو خیا ل کیا گیا کہ وہ لیبرروم سے باہر واش روم کے لیے چلی گئی ہے۔ پھر معلوم ہو ا کہ باہر اُس کی ڈلیوری ہو گئی ہے۔ اُس کوPPHکے لیے واپس وارڈ لایا گیااور بچے کو چلڈرن وارڈ داخل کیا گیا۔
تمام علاج و معالجہ حسب طریقہ کار ہوااور کوئی کو تاہی برتی نہیںگئی۔جبکہ لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ صبح سے ہسپتال میں دھکے کھا رہے تھے۔ اہم خون ٹیسٹوں سمیت الٹراسائونڈ کی سہولت بھی گائنی وارڈ میں موجود نہ تھی۔ اُن کا کیس نارمل ڈلیوری کا تھا۔ مگرڈاکٹرز نے اُس کا خواہ مخواہ آپریشن تجویز کر دیا۔ جب وہ مایوس ہو کر ہسپتال سے باہر نکلنے لگے تو مین گیٹ کے ساتھ ملحقہ سٹرک پر ڈلیوری ہو گئی۔ اگر نارمل ڈلیوری ممکن نہ تھی تو پھر کیوں سٹرک پر نارمل ڈلیوری ہو گئی۔ ؟ اب میڈیکل ماہرین ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ Breach of footling type پوزیشن کی زچگی سٹرک پر ہو سکتی ہے یا نہیں۔ٹیچنگ ہسپتال میں انسانیت کی تذلیل کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اِس سے قبل بھی کئی خواتین گائنی وارڈ سے باہر سٹرک پر بچوں کو جنم دے چکی ہیں اور کئی خواتین دوران زچگی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ مگر آج تک ایک بھی کیس ایسا موجود نہیں جس میں کسی ذمہ دار کو قصوروار قرار دیتے ہوئے سزا دی گئی ہو۔عورتیں اور بچے روز مر رہے ہیں مگر قصور وار کوئی نہیں۔عید سے دو روز قبل قبائلی علاقہ کی سات سالہ بچی چنڑ مائی کو سانپ کا ٹ جاتا ہے۔ بچی کو ٹیچنگ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لایا جاتا ہے۔ لواحقین کا کہنا تھاکہ بچی کو سانپ نے ڈسا ہے۔ مگر ابتدائی طور پر ڈاکٹر صاحبان بمطابق سرکاری لیب ٹیسٹ رپورٹس دعوی کرتے ہیں کہ سانپ کا زہر موجود نہیں۔بچی کو ایمرجنسی وارڈ سے چلڈرن وارڈ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ وہاں بچی کی حالت دھیرے دھیرے بگڑنے لگتی ہے۔ لواحقین مسیحائوں کو سنگین ہوتی صورت حال سے آگاہ کرتے ہیںمگر چلڈرن وارڈ میں کوئی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ، کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ حتی کہ ڈپٹی ایم ایس سنیئر ڈاکٹر زکی عدم موجودگی پر اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ متوقع چاند رات کی بناپرسینئر ڈاکٹرز شائد اپنے بچوں کی شاپنگ میں مصروف تھے۔ المختصر 15گھنٹے کی اذیت کے بعد بچی ایڑیاں رگڑ رگڑ اللہ کو پیاری ہوئی تو مسیحائوں نے موت کا سبب سانپ کا زہر قرار دے کر خود کو بری الزمہ قرار دے دیا۔ بعین ہی عید کی علیٰ الصبح مقامی صحافی شیخ راشد سلیم کے نوجوان بھانجے کی اچانک طبیعت خراب ہونے پر اُسے ایمرجنسی وارڈ لایا گیا۔ پہلے تو وہاں کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ پھر عملہ کی طرف سے لواحقین کو بازار سے ادویات خریدنے کا کہا گیا ۔عملہ میں سے کسی سٹاف ممبر نے جوکہ ڈاکٹر ہر گز نہیں تھا اُس نے مریض کو انجکشن لگایا ۔ انجکشن کے تھوڑی دیر بعد طبیعت اِیسی بگڑی کہ چاند رات کو رات بھر عید کی تیار ی کرنے والا نوجوان ایک گھنٹہ میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔جب ایمرجنسی وارڈ میں کوئی سینئر ڈاکٹر ہی موجود نہیں تھا تو وجہ موت تو خاموشی سے مرحوم کے ساتھ قبر میں دب کر رہ گئی۔ اِس واقعہ پر بھی اگر انکوئری کمیٹی بنا دی جائے تو شائد انکوئری ممبران رپورٹ پیش کریں گے کہ مریض کو حسب طریقہ کار داخل کیا گیا اور اُس کا SOPکے مطابق علاج کیا گیا مگر وہ اللہ کی مرضی سے اللہ کو پیار ا ہو گیا اور کوئی ڈاکٹر پیشہ وارانہ غفلت کا مرتب نہیں پایا گیا۔ قرآن مجید کی سورۃ حج میں خالق کائنات نے لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ قیامت کے دن تمہیں دوبارہ جینا ہے۔ میں نے ہی تمہیں مٹی ، نطفہ، پانی اور خون سے بنایا ۔ ماں کے پیٹ میں رکھا۔ تمہیں مرنا اور پھر زندہ ہونا ہے۔ جب قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر ہم سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو پھر اِس عارضی دُنیا میں یہ ظلم، یہ انسانیت کی تذلیل آخرکیوں؟