بہت اچھے اور کھلے دل کے مالک برادرم علیم خان سے مل کر بالکل نہیں لگتا کہ ہم ایک امیر کبیر آدمی سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے شعر و ادب کے دوستوں کو عید کیک بھجوایا۔ میری صدارت میں الحمرا میں ایک تقریب تھی۔ علیم خان بھی تقریر کرنے کے لئے آئے تقریباً آدھی تقریر میں اپنے ساتھ میرے روابط کی بات کی اور بڑی خوشی سے یہ انکشاف کیا کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں محمد اجمل نیازی کا باقاعدہ شاگرد ہوں۔ نیازی صاحب بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے اورلڑکے نجانے کہاں کہاں سے ہماری کلاس میں آ جاتے تھے۔ انہوں نے کسی کو نہ روکا۔ بی اے کی کلاس میں تو لڑکیاں بھی آ جاتی تھیں۔ اجمل نیازی اظہار نہ کرتے مگر اُن کی سرخوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا۔
وہ بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتے۔ لڑکے ہنس ہنس کر ڈھیر ہو جاتے۔ لڑکیاں بھی اپنی خوشی پر قابو نہ پا سکتیں۔ اچھی لڑکیاں جہاں نہ ہوں تو ایک بیزاری سی مسلط رہتی ہے۔ کوئی جگہ بھی گھر کی طرح نہیں ہوتی اگر وہاں خواتین نہ ہوں۔ اور آدمی بہت بور ہوتا ہے۔ ہم نے اس حالت زار میں بڑی زندگی گزاری ہے۔ ایسے آدمی کے لئے ”چھڑے“ کا طعنہ بالکل بجا ہے۔
اپنی روایت کے مطابق علیم خان اچھے موقعوں پر کچھ نہ کچھ دوستوں کی طرف تحائف بھیجتے رہتے ہیں ہم اسے معمولی بات نہیں سمجھتے۔ اب تو یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ وہ امیر آدمی ہیں مگر غریب کو کمتر نہیں سمجھتے۔
برادرم اسد اللہ غالب جو صحافت میں مجھ سے سینئر ہیں۔ وہ نوائے وقت کے ایک اہم کالم نگار ہیں ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھ سے پہلے وہ ”راوی“ کے ایڈیٹر تھے۔ یہ منصب عام کالجوں کے ادبی رسالوں جیسا نہیں ہے۔ راوی کا ا یڈیٹر ہونا ایک اعزاز ہے اور یہ میرا اعزاز بھی ہے۔ مجھ سے پہلے اسد اللہ غالب اس اعزاز کا مالک تھا۔ اگر میں ”راوی“ کا ایڈیٹر نہ بنایا گیا ہوتا تو شاید ادب و صحافت میں نہ آیا ہوتا۔
برادرم علیم خان دوستوں اور دوسروں کی قدر کرنے والے آدمی ہیں۔ صحافیوں اور ادیبوں کو انہوں نے عید کے تحفے کے طور پر عید کیک بھجوائے۔ صحافی برادری کے لئے یہ تحفہ محبت کا تحفہ ہے۔ میرے محبوب رسول کریم حضرت محمد نے فرمایا کہ دوستوں کی طرف تحائف بھیجا کرو۔ اس طرح محبت بڑھتی ہے۔ تو یہ کام سنتِ نبوی ہے۔
کسی طرح برادرم اسد اللہ غالب کی طرف کیک نہیں پہنچا۔ انہوں نے اس محرومی کا ذکر ایک پورے کالم میں کیا ہے۔ ان کے کالم کا عنوان ہے ”علیم خان کے عید کیک سے محرومی“ غالب نے علیم خان سے گلہ کیا ہے، مگر وہ تعریف کرنے پر بھی مجبورہوئے ہیں انہوں نے علیم خان کے فلاحی کاموں کی بات کی۔ لکھتے ہیں ”نواب زادہ صاحب کے آموں سے تو میں ہمیشہ محروم رہا مگر علیم خان نے عید کیک صحافیوں میں بانٹنے کیلئے ایک لمبی فہرست بنوائی مگر میں اس میں شامل نہیں تھا علیم خان کا سردار ایاز صادق نے مقابلہ کیا تو میں نے علیم خان کا بھرپور ساتھ دیا“ اور اس کے بعد علیم خان کے فلاحی کاموں کا ذکر کیا۔ پورا کالم لکھا ہے اس عید پر میرے پوتے رات گیارہ بجے تک علیم خان کے کیک کے انتظار میں جاگتے رہے اس سے پہلے مجھے ان کی طرف سے کیک ملا تو میں نے کالم لکھا اب نہیں ملا تو بھی کالم لکھا ہے ۔بات کیک کی نہیں اس رویئے کی ہے جو اقتدار کے یقین کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس ماحول میں لوگوں کی آنکھیں بدل جاتی ہیں “ مگر یہ بات علیم خان کیلئے نہیں کی جا سکتی۔ اب شاید علیم خان ان کی طرف کیک بھجوا دیں۔ پہلے بھی یہ کسی کی بھول ہو گی یا بے دھیانی میں خیال نہ رہا ہوگا۔ غالب نے علیم خان کی تعریف بھی کی اور اپنے غصے کا بھی اظہار کیا۔ اسد اللہ غالب دوست ہے۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں اکٹھے تھے۔ لگتا ہے کہ بے نیاز آدمی ہیں اور وہ بے نیاز ہیں بھی وہ علیم خان کیلئے لکھتے ہیں۔” میں نے علیم خان کو پیسے والوں میں سب سے زیادہ شریف آدمی پایا ہے“۔ غالب کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دوستوں کے مثبت کاموں کی تعریف بھی کرتا ہے اس تعریف میں شکایت بھی ہوتی ہے اور گلہ بھی۔ کچھ مطالبہ بھی ہوتا ہے۔
آج کے ماحول میں علیم خان ایک نعمت کی طرح ہے ۔ وہ ایک غنیمت آدمی ہے ورنہ ایسے ایسے لوگ سیاست میں آ گئے ہیں کہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے۔ یہ پہلا امیر آدمی ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ جس کیلئے دوستانہ خیالات رکھتے ہیں۔ وہ سیاست کے رستوں پر نمایاں آدمی ہے مگر لگتا نہیں وہ سیاستدان ہے اور نہیں بھی۔ اور اگر یہ سیاست بھی ہے تو پھر تو اچھی بات ہے۔
تحریک انصاف کے اہم ترین لوگوں میں سے ہے اس نے عمران خان کا ساتھ دینے کا حق ادا کردیا ہے۔ وہ ساتھیوں کا ناقابل شکست ساتھی ہے وہ دوستوں کا دوست ہے اور دشمنوں کا دشمن بھی ہے کہا گیا کہ جو شخص کسی کا دشمن نہیں وہ کسی کا دوست بھی نہیں وہ الیکشن بھی لڑے گا ۔ اللہ کرے کامیاب ہو ایسے آدمی اقتدار میں ہوں تو اس کی قدر بڑھا دیتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024