رسول بخش پلیجو اور کالا باغ ڈیم
قانون دان، سیاست دان، ادیب، دانشور اور مظلوم طبقے کے حقوق کی آواز بلند کرنے والا رسول بخش پلیجو 88برس کی عمر میں 7جون کو انتقال کر گیا۔ رسول بخش پلیجو ایم آر ڈی تحریک کے روح رواں تھے۔ 1986ءکو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں عالمی پنجابی کانفرنس میں پلیجو نے شرکت کی اور یہیں ان سے میری ملاقاتیں رہیں۔ کانفرنس کے زیر اہتمام رسول بخش پلیجو کے اعزاز میں تقریب بھی منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی نظامت سید افضل حیدر نے کی۔ چوہدری اصغر خادم نے تعارفی کلمات ادا کیے۔ چوہدری صاحب کوٹ لکھپت جیل لاہور میں پلیجو کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ یہ جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔ اس حوالے سے ان کی باتیں دلچسپ تھیں۔ عالمی پنجابی کانگریس کے صدر فخر زمان کا کہنا تھا کہ آج پنجاب نے اپنی شناخت کرلی ہے۔ ہمیں لٹریچر اور ثقافت کے ذریعے صوبوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔ بلوچستان کے عوام جام درک اور توکلی کی زبان یعنی بلوچی میں بات کریں۔ خیبرپختونخوا کے لوگ رحمان بابا اور خوشحال خاں خٹک کی تعلیمات اور اقوال کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں۔ سندھ کے عوام سچل سرمست اور شاہ لطیف بھٹائی کے صوفیانہ کلام کو پڑھ کر پنجاب اور دیگر صوبوں کے درمیان سانجھ پیدا کریں۔ اسی طرح پنجاب کے عوام بابا فرید، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور دیگر صوفی شاعروں کے کلام کے ذریعے روابط بڑھائیں۔ ان صوفی شاعروں کی زبان اور تعلیمات پر عمل کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔سید افضل حیدر نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ رسول بخش پلیجو سندھ کا سیاسی کارکن ہے۔ لاہور میں ان کی پذیرائی اس لیے کی گئی کہ وہ سندھ جا کر پنجاب کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ میرا تعلق پاکپتن سے ہے، جہاں کے عظیم صوفی شاعر بابا فرید گنج شکرؒ نے پنجابی زبان میں عوام کے دُکھ درد کی کہانی اعلیٰ طریقے سے پیش کی جو روایت ازاں بعد بلھے شاہ، وارث شاہ اور گورونانک تک پہنچی۔ ہمارا نظریہ انسانیت ہے اس میں صوبائیت نہیں۔ یہ اسلامی اور بین الاقوامی اخوت کا نظریہ ہے جس میں طبقاتی تقسیم نہیں ہوتی۔
رسول بخش پلیجو نے اپنی تقریر کی ابتدا پنجابی میں کی۔ چند فقروں کے بعد اردو میں تقریر شروع کر دی۔ پلیجو کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ایک نیا طبقہ پیدا ہورہا ہے جو جمہوریت کی بات کرتا اور فکری تجزیہ بھی کرتا ہے۔ سندھی محفل بلھے شاہ کے کلام کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جیل یاترا کے دوران میں جیل کے ساتھیوں کو بلھے شاہ کا کلام سناتا اور مفہوم بھی بیان کرتا تھا۔ بلھے شاہ کے کلام میں سندھی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ اب ادب اور ثقافت کی طاقت کو آزمانے کی ضرورت ہے۔ رسول بخش پلیجو پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پلیجو صاحب نے اس موقع پر وضاحت کی تھی کہ میں خاکسار قسم کا انسان ہوں۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
پلیجو نے پنجاب کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو مشورہ دیا کہ انہیں سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی طرح بہادری اور جرا¿ت کے ساتھ عوام کا ساتھ دینا چاہیے اور عوام کے دکھ درد میں شریک ہو کر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ سچا شاعر وہی ہے جس کی شاعری میں عوام کے دکھ درد اور مسائل کا عکس نظر آئے۔ اس تقریب کے چند دنوں بعد اسی ہال میں پنجاب فورم کے تحت رسول بخش پلیجو کی مذمت میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت عنایت حسین بھٹی نے کی۔ بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ رسول بخش پلیجو کا پنجاب میں استقبال کیا گیا۔ جب وہ لاہور جیل میں پابند سلاسل تھے تو لاہور کی دیواروں پر ان کے رہائی کے لیے نعرے لکھے گئے۔ پلیجو صاحب نے اس کا صلہ یہ دیا کہ انہوں نے پنجاب کو لٹیرا، غاصب اور سندھ کو مظلوم اور محروم کہنا شروع کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے، وہ اپنے مشاہیر کا مذاق نہیں اڑایا کرتیں۔ ان مشاہیر کی قربانیوں اور عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے مشاہیر کے خلاف کوئی لفظ سننا گوارا نہیں کریں گے۔ بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ پلیجو صاحب نے سندھی ثقافت کی بات کی۔ ان کو علم ہونا چاہیے کہ پنجاب کی بھی اپنی ثقافت ہے۔ کسی خطے کی ثقافت دوسرے خطے پر نہیں ٹھونسی جا سکتی۔ پلیجو کی وفات کے بعد سید افضل حیدر صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے افسوس ہوا کیونکہ پنجاب اور پاکستان کے خلاف انہوں نے سخت تقریریں کیں۔ پلیجو میں بین الاقوامی اخوت کا فقدان تھا۔ یعنی ان کے نظریات بدل گئے تھے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے میں اب ان کے بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔
پنجاب فورم والوں نے پلیجو کے خلاف جو مذمتی اجلاس کیا، سید افضل حیدر صاحب کی گفتگو کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ان کا موقف کسی حد تک درست تھا۔ کالا باغ ڈیم کے خلاف ٹی وی پر رسول بخش پلیجو دھواں دھار تقریریں کرتے تھے۔ آج بھی بعض لوگ کالا باغ ڈیم کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ کالا باغ ڈیم کا تصور 1947ءمیں نواب آف بھوپال نے قائداعظم کے نام ایک خط میں بیان کیا۔ ”جناح پیپرز“ جلد ششم کے صفحہ نمبر 151۔ 152 میں نواب آف بھوپال کا نوٹ چھپا ہے۔ ان پیپرز کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر زوار حسین زیدی تھے۔ تلخیص و ترجمہ سید نصرت اللہ شاہ نے کیا۔ یہ پیپرز قائد اعظم اکیڈمی اسلام آباد نے شائع کیے۔ 1947ءمیں نواب آف بھوپال لکھتے ہیں ”پاکستان کی معیشت کا انحصار دریاو¿ں پر ہے۔ پاکستان کے لیے دریائے سندھ ہی ایسا ہے جو مصر کے دریائے نیل کی طرح پاکستان کی معاشی زندگی کے لیے خون کے دھارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت دریائے سندھ کے پانی کا قیمتی اثاثہ ضائع ہو رہا ہے۔ تفتیش کرنا ماہروں کا کام ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ چار مقامات پر دریائے سندھ پر بند باندھے جا سکتے ہیں۔ اول دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم کے نیچے کی طرف اٹک پر اور دوم کالا باغ پر جنوب میں سو میل کے فاصلے پر جہاں سندھ ایک تنگ گھاٹی سے گزرتا ہے۔ اس نئی مملکت کی صنعتی ترقی کے لیے بجلی فراہم کر کے ایک مضبوط بنیاد قائم کی جا سکتی ہے“
قارئین آپ سوچیں کہ کالا باغ ڈیم کی افادیت کی بات 1947ءمیں نواب آف بھوپال نے قائداعظم کے نام ایک خط میں کر دی تھی۔ آج 2018ءمیں بھی مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔