حاضر اسٹاک رہنماﺅں سے روشن مستقبل کی توقع ؟؟
لگتا ہے پی پی پی نے 2018ءکے متوقع انتخابات میں اپنے لئے کامیابی کا ایک ٹارگٹ متعین کیا تھا جس کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری کی اعلی سیاسی سوچ نے فیصلہ کیا تھا مبینہ خرید و فروخت اور تحریک انصاف کی سیاست میں زیادہ سمجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان ، حکومت پر فی الوقت اور سینٹ میں آئیندہ پانچ سال تک کیلئے قبضہ حاصل کرلیا جائے چونکہ یہاں عوام کے ووٹوںکی ضرورت نہیں بلکہ ©©”ضرورت مند “ اراکین اسمبلی سے کام چل گیا ۔ اور تمام صادق اور امین لوگوںنے اپنا ووٹ فروخت کرلیا ، پی پی پی کا دوسرا ٹارگٹ سندھ کی صوبائی حکومت جہاں انہیںکامیابی مل جائے گی ، شہری علاقے میںملا جلا رجحان ہوگا ، اسکی وجہ ایم کیو ایم کا ”جوتیوں میں دال بٹنا “ ہے وہاں جیتنے والے تحریک انصاف اور خود پی پی پی ایم کیو ایم کو سیٹ بیک دے سکتے ہیں ۔ جو اہم کامیابی 2018 ءکے انتخابات کے حوالے پی پی پی نے حاصل کی ہے وہ اپنے لوگوں پر نیب کے اور دیگر مقدمات سے چھٹکارہ ہے خاص طور خود ّآصف علی ذرداری پر کرپشن کے مقدمات ، رہے شرجیل میمن ، یا ڈاکٹر عاصم ، ایان علی تو یہ مسائل حل ہوجائینگے ۔ اصل مقابلہ پنجاب کی سرزمین پر ہوگا جہاں لوگوں کا خیال ہے مسلم لیگ کا میدان ہوگا ۔ تحریک انصاف چیف سیکریٹری یا کوئی اعلی عہدیدار کو تبدیل کرا بھی لے تو وہاںکے عوام کو تبدیل نہیںکیا جاسکتا ووٹ تو عوام کودینا ہے ۔اعلی عہدیداروں کی تبدیلی چاہے وہ مسلم لیگ ن کی جانب سے ہو یا تحریک انصاف کی جانب سے وہ احتیاط کے طور پر لگتے ہیں کہ انتخابات کے بعد یہ کہا جاسکے کہ ”ہماری نشستیں زیادہ ہوتیں اگر فلاں شخص اپنے عہدے پر نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ ،اسطرح کے الزامات تحریک انصاف 2013 ءکے انتخابات کے بعد ”پنکچر ‘ ‘ لگانے کی الزام تراشی کرتی رہی ہے ۔ میڈیا میں شور مچانے کا زیادہ اور کامیاب تجربہ تحریک انصاف کو ہے اس میں مسلم لیگ ن ہمیشہ پیچھے رہی ہے ۔ ہمارے لیڈاران عوام میں بد اعتمادی کی فضاءاتنی پیدا کرچکے ہیں جو عوام میں گزشتہ ستر سالوں میں نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن کے اقدام گو کہ سیاست کرنے والوں اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کیلئے شرمناک ہے کہ اپنے معاملات امن و امان کے ذریعے حل نہیں کرسکتے مگر بہت مستحسن اقدام ہے الیکشن کمیشن کا جسکے تحت پولنگ کے دن افواج پاکستان کی خدمات لی جارہی ہیں ، افواج پاکستان وطن عزیز کے تابناک مستقبل کیلئے ہر جگہ اور ہر وقت کوشاں رہتی ہے جبکہ بہ حیثیت ادارہ اس فوج کو بدنام کرنے میں سیاست دانوں نے کوئی کسر اٹھا نہیںرکھی اور ہر جماعت اس میں ملوث ہے انہوںنے اپنے زہریلے بیانات کے ذریعے عوام اور دنیا کو یہ تاثر دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ فوج ”ڈوریاں ‘ ہلا تی ہے ۔ جیسے عمران خان کے ارشادات کہ میاںنواز شریف کو پہلے فوج یا عدلیہ کامیابی دلاتے رہے جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے میاں نواز شریف کا جب بھی حکومت نکالا ہوا وہ اداروںسے اختلافات کی بناءپر ہوا۔ دراصل جنرل مرحوم ضیاءالحق براہ راست پی پی پی اور پرویز مشرف براہ راست نواز شریف کے خلاف برسرپیکار رہے جب وہ وردیوںمیں تھے اس سے بھی یہ تاثر ابھرتا ہے ۔ آج یہ تاثر احتسابی عدالتوں اور دیگر عدالتوںکی کاروائیوںسے ہورہا ہے کہ کئی سالوں سے منتظر ہزاروںمقدمات چھوڑ کر اگر کوئی سائل کل بھی نواز شریف کے خلاف کوئی درخواست دے دے تو دو دن میںاسکی تاریخ لگ جائے گی ، نیز احتساب عدالت نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وافاداری کا ایکشن کیا جب بغیر کسی تحقیق اور مقدمات کے سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف کی ہندوستان سے دوستی کی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے الزام لگا دیا کہ نہ جانے کتنے ارب روپیہ بھارت بھیج دیا ہے ۔ ہماری افواج پاکستان کے متعلق دنیا جانتی ہے کہ وہ ایک پیشہ ور فوج ہے دنیا اسکی معترف ہے ، پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے اپنی جانوںکی قربانیاں دینے میں انہیں کوئی شکائت نہیں بہ حیثیت ایک محب وطن پاکستانی تمام پاکستانیوںکی اپنے بہ حالت مجبوری حاضر اسٹاک لیڈران سے یہ ہی درخواست ہے کہ شوق سے ایک دوسرے کا سر پھاڑ کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجائیں ، عوام کی فلاح و بہبود تو ستر سالوں سے کوئی نہ ہوئی نہ ہی حاضر اسٹاک لیڈران سے بہتر مستقبل کی کوئی توقع ہے مگر برائے مہربانی افواج پاکستان اور دیگر اداروں کی جن کہ عزت دنیا میں باقی ہے،انہیں اپنے معاملات اور فروعی الزامات میں درمیا ن میں نہ لائیں۔