سیاست میں کردار کشی کی روایت
جب کوئی سماج صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے پھر اس میں ہر قسم کی سیاسی، سماجی اور معاشی برائیاں جنم لینے لگتی ہیں ایسے معاشرے کے افراد برائی کو برائی نہیں سمجھتے‘ اس طرح برائی معاشرے کا کلچر بن جاتی ہے۔ قرآن اور سیرت نے غیبت، تجسس، جستجو اور گمان کے بارے میں واضح پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کے مطابق بہتان، الزام تراشی اور کردار کشی گناہ ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کسی کے ذاتی کردار کے بارے میں کھوج نہ لگاﺅ خبر کو آگے پھیلانے سے پہلے خوب تحقیق کرلیا کرو۔ ایک روایت کے مطابق ایک عورت اللہ کے رسول کے پاس آئی اور کہنے لگی ”اللہ کے رسول میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے مجھے سزا دیجئے۔ آپ نے تین بار اس کی بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جب عورت نے اصرار کیا تو آپ نے اس پر حد نافذ کی۔ اللہ تعالیٰ دوسروں کے عیبوں پر پردہ پوشی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور برائی کو پھیلانے سے روکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں برائی کی تشہیر کی جاتی ہے اور نیکی کو دبایا جاتا ہے۔ مذہب کو دوسروں کی کردار کشی کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم اور علامہ اقبال کے سیاسی مخالفین نے ان پر کفر کے فتوے لگائے‘ جو بے سود ثابت ہوئے۔ کوئی لیڈر جب عوام کے دلوں میں گھر کرلیتا ہے تو پھر اس کے خلاف کردار کشی کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوتا۔
1970ءکی انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی کے خلاف کردار کشی کا ہرحربہ استعمال کیا گیا۔ فتویٰ جاری کیا گیا جو بھی پی پی پی کو ووٹ دے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ کیا گیامگر عوام نے کردار کشی کے تمام حربے مسترد کرکے پی پی پی کو کامیاب کیا اور بھٹو صاحب وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ 1988ءکے انتخابات میں آئی جے آئی کے مرکزی لیڈروں نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف کردار کشی کی مکروہ، گھٹیا اور مذموم مہم چلائی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو چونکہ بے مثال قیادت اور جمہورت کے لیے تاریخ ساز قربانیوں کی وجہ سے شہرت کے عروج پر پہنچ چکی تھیں لہذا اسٹیبلشمنٹ کی طاقت، مہران بنک اور حبیب بنک کا سرمایہ اور بے بنیاد الزامات ان کا راستہ نہ روک سکے اور وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔
سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لیے شاعری، کتب، اشتہارات، بیانات، تقاریر اور دستاویزی فلموں کا سہارا لیا گیا۔ میاں بیوی کا رشتہ بڑا محترم اور باوقار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کئی بیگمات نے اپنے شوہروں کے بارے میں کتب لکھیں جن میں تہمینہ درانی کی اپنے سابق شوہر ملک غلام مصطفی کھر کے خلاف ”مائی فیوڈل لارڈ“ بہت معروف ہوئی۔ سیاستدانوں کی نجی زندگی کے بارے میں درجنوں کتب لکھی گئیں۔ آج کل کردار کشی کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں ان کی سابق بیگم ریحام خان کی کتاب شائع ہونے سے پہلے ہی بہت معروف ہوچکی ہے۔ منصوبے کے مطابق اس کتاب کو انتخابات سے دو ہفتے قبل منظر عام پر آنا تھا تاکہ تحریک انصاف کے حامیوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرکے اس جماعت کی پارلیمانی طاقت کو کم کیا جاسکے مگر اس کتاب کا متن بہت پہلے لیک ہوگیا لہذا اب کتاب شائع بھی ہوگئی تو عمران خان کی شخصیت کو مسخ نہیں کیا جاسکے گا اور ان کے خلاف کردار کشی کی مہم نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی کیوں کہ عمران خان شہرت کے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان کی پہلی بیگم جمائما خان باوقار خاتون ہیں انہوں نے علیحدگی کے باوجود عمران خان کے بارے میں کبھی منفی ریمارکس نہیں دئیے بلکہ ہر مشکل وقت میں عمران خان کی مدد کی اور نہ ہی عمران خان نے اپنی سابق بیگمات کے بارے میں ناروا اور ناجائز ریمارکس دئیے۔ ریحام خان نے عمران خان کی نجی زندگی کے بارے میں کتاب لکھ کر اپنی دنیا اور عاقبت دونوں خراب کرلی ہیں۔ انسان قبر میں خالی ہاتھ ہی جاتا ہے کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی۔ انسان کے اعمال ہی اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کی عاقبت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ سیاست دانوں کی نجی زندگی کو بے نقاب کرکے اور برائی اُچھال کر نسلوں کو برباد کررہا ہے۔ میڈیا کو ضابطہ¿ اخلاق کا پابند رہنا چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اعلیٰ منصبوں سے نوازتا ہے اور عزت دیتا ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے وقار اور عزت پر پہرہ دیتے ہیں جبکہ اکثر اپنے مقام سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس پاکستان کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ اللہ نے انہیں عوامی مقبولیت بھی عطا کی۔ انہوں نے آئین کی حکمرانی کے لیے دبنگ فیصلے بھی دئیے۔ راقم نے ان کی پرفارمینس سے متاثر ہوکر ان کی حمایت اور تحسین میں پرجوش کالم لکھے۔ پاکستان کے نامور دانشور سابق سیکریٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان نے مشورہ دیا کہ میں شخصیات کو گلوریفائی نہ کروں ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔
سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنالی اور مقبولیت کھو بیٹھے اور اب وہ عمران خان پر مبینہ بیٹی کا پرانا الزام لگاکر عوام کی نظر میں اپنی عزت بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ الزام سیاسی مخالفین عمران خان پر پہلے بھی کئی بار لگا چکے ہیں جو کارگر ثابت نہ ہوا۔ افتخار محمد چوہدری نے عمران خان کے کاغذات نامزدگی پر غیر اخلاقی اعتراض کرکے پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچایا ہے اور نوجوانوں کو صنفی پیغام دیا ہے۔ ہم دوسروں پر الزام تراشی کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کے عادی نہیں ہیں۔ عام انتخابات میں خواتین کی خصوصی نشستوں کے لیے سیاسی جماعتیں الیکشن کمشن پاکستان کو ترجیحی لسٹ دیتی ہیں۔ جب یہ لسٹ منظر عام پر آتی ہے تو سیاسی لیڈروں کی جمہوری اُصولوں کے ساتھ وابستگی بے نقاب ہوجاتی ہے۔ خصوصی نشستوں کے لیے عموماً خواتین کو شکل و صورت اور خاندان کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دئیے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف نے میرٹ کی بنیاد پر جن خواتین کو خصوصی نشستوں کے لیے پارٹی ٹکٹ دئیے ہیں ان میں ایم این اے کے لیے محترمہ عندلیب عباس اور ایم پی اے کے لیے محترمہ نیلم حیات شامل ہیں۔ محترمہ عندلیب عباس نے اپنے جذبے، جنون، عزم اور شب و روز محنت سے سیاست میں مقام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے اس روحانی اُصول کو سچ ثابت کردکھایا کہ نیت اور محنت سے کام کیا جائے تو اللہ برکت ڈالتا ہے۔ محترمہ عندلیب عباس معروف سیاسی لیڈر ہیں۔ عوام نے ان کو میڈیا پر پولیس کے ہاتھوں زد و کوب ہوتے دیکھا اور تحریک انصاف کا مدلل دفاع کرتے سنا۔ ہر لحاظ سے ان کا حق تھا کہ انہیں پہلی ترجیح دی جاتی البتہ ان کو ترجیحی لسٹ میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے انشاءاللہ ان کی کامیابی یقینی ہے۔ محترمہ نیلم حیات نے لاہور کی صدر کی حیثیت سے تحریک انصاف کو یونین کونسل کی سطح پر منظم کرنے کے لیے بے مثال جذبے اور جنون کے ساتھ شب و روز کام کیا۔ پارٹی کی خاطر اپنے گھر اور بچوں کی پروا بھی نہ کی‘ حالاں کہ بچے پہلے ہی یتیم ہوچکے تھے۔ محترمہ نیلم حیات کا ایک نوجوان بیٹا باپ اور ماں کی نگہداشت سے محروم رہ کر قبضہ مافیا کے ہاتھوں قتل ہوا۔ عمران خان تعزیت کے لیے محترمہ نیلم حیات کے گھر بھی آئے۔ کارکردگی کی بنیاد پر ان کا نام پہلی پانچ خواتین میں ہونا چاہیئے تھا مگر لسٹ میں ان کو 12ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ شنید ہے کہ چند بااثر خواتین ان کو مزید نیچے لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کھلی نا انصافی ہوگی اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں مایوسی پھیلے گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ عمران خان کو ایک تجربہ کار سیاستدان اور ماہر قانون دان برادرم بابر اعوان کی مشاورت حاصل ہے جو تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر کی حیثیت میں سیاست اور وکالت دونوں محاذوں پر جان فشانی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹوں کی میرٹ پر تقسیم کے سلسلے میں قابل تحسین کردار ادا کریں گے۔