پیرنی‘ عمران خان اور وزارت عظمیٰ
وزارت عظمی کی منزل بہت دور ہیں لیکن عمران خان کے خواب چہار سو بکھر رہے ہیں‘اس بار کوئی اور نہیں ان کے اپنے جانثار کارکن ان کے مدمقابل ہیں بنی گالہ کا محاصرہ اور لاتعداد دھرنے اپنے کارکن کر رہے ہیں بشریٰ بی بی کے ہمراہ عمرے کی ننگے پاو¿ں ادائیگی کھیل تماشا بن گئی تھی اب بشریٰ باجی کا پرانے نام کا استعمال نئے سوالات کھڑے کر رہا ہے جو کچھ یوں ہے کہ بشری خاور فرید مانیکا چارٹرڈ فلائیٹ کی ایک مسافر تھیں کہ اب تک اپنے دستاویزات میںکوئی ترمیم نہیں کرائی گئی
کروڑوں روپے کی بولیاں لگ رہی ہیں ‘صاف چلی شفاف چلی کے نعرے لگانے والے جمہوریت اور جمہوری اقدار کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکال رہے ہیں کیا منظر ہے کہ متوقع وزیر اعظم کی ضعیف الاعتقادی کا یہ عالم ہے کہ وہ سیاسی عمل پر چار حرف بھیج کر اپنی تمام توقعات اپنی اہلیہ محترمہ اور پیرو مرشد سے وابستہ کر چکے ہیں اس معاملے میں نوازشریف بھی کسی درجے عمران خان سے کم نہیں‘ مدتوں پہلے ہزارہ کے پہاڑوں میں مقیم بابا دھنکا سے چھڑیاں کھانے کا منظر یہ کالم نگار آج تک فراموش نہیں کرسکا وہ چھڑی یہ کالم نگار بطور تبرک اٹھا لایا تھا۔
تحریک انصاف ’ق لیگ‘ کا نیا جنم بن چکی ہے۔ نظریاتی جماعت ہوا میں تحلیل ہوچکی ہے۔ نیازی قبیلے کے سربراہ اور تحریک کے بانی رہنماسعید اللہ خان نیازی، ژوب بلوچستان سے آئے اکبر شیر بابر سندھ سے انصاف کی آواز جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے بعد لاہور سے حامد خان ایڈووکیٹ جیسا نظریاتی اور فکری رہنما بھی ”تحریک“ کی ”ناانصافی“ پر آخر کار پھٹ پڑا۔ افسوس تبدیلی کا سونامی جاگیردار، وڈیروں، روایتی وموروثی سیاست کے بدنام زمانہ جوہڑ میں بدل گیا۔ بنی گالہ پر جاری لڑائی مارکٹائی، کارکنوں کی ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسانے کی خبریں‘ تبدیلی اور میرٹ کے خواب چکناچورکررہی ہیں۔ اس منظرکو پاکستانی جمہوری نظام کی بدقسمت روایت کا خلاصہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ہر پارٹی نظریہ کے خوبصورت پیراہن میں ملبوس سجی سنوری دلہن کی طرح قوم کے سامنے لائی جاتی ہے، کارکن شادی کی تقریب سجاتے، کرسیاں لگاتے اور انتظامات میں ج±ت جاتے ہیں اور آخر میں سرمایہ دار اور حلقوں میں پھن پھیلائے روایتی گھاگ سیاستدان د±لہا بن کر سٹیج پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ نظریہ ہار جاتا ہے اور سرمایہ جیت جاتا ہے۔
2018 کے ٹکٹوں کے اجراکو بندر بانٹ قرار دیتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ چوروں ،لٹیروںاور ٹھگوں کو پی ٹی آئی کی ٹکٹوں سے نوازاگیا علیم خان پارٹی کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔آمدہ الیکشن 2018 میں پارٹی کارکنوں کو ٹکٹ دئیے جائیں جو ان کا حق ہے۔ علیم خان کی پراسرار سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ وہ پارٹی کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔قومی اسمبلی کے 272حلقوں کے لئے پی ٹی آئی نے جو ٹکٹ جاری کئے، اس کے بعد پی ٹی آئی کا سونامی آنے کی بجائے عمران کے خلاف سونامی آگیا۔
جہانگیر خان ترین اور شاہ محمود قریشی نے اپنے اپنے دھڑوں کو پارٹی ٹکٹ دلوانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی۔ان کی حکمت عملی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے دھڑوں کو کامیاب کرانا ہے تاکہ انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں ’وزیراعظم‘ کے لئے ان کو سازباز میں فیصلہ ک±ن قوت مل جائے۔ ٹکٹ تقسیم کرنے کے طریقہ نے ثابت کیا کہ عمران خان نے سب کچھ فراموش کردیا۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کوتین، شہرام ترکئی کو تین اور اسد قیصر کو تین ٹکٹ دے کر نظریاتی کارکنوں کو یہ پیغام مل گیا کہ سرمایہ کی کیا اہمیت ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی میرٹ کی دھجیاں بنی گالہ کے پہاڑوں پر دور دور تک بکھری دکھائی دے رہی ہیں ’سٹیسٹس کو‘ کی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مخصوص نشستوں پر جنہیں نامزد کیا ہے، ان کا پارٹی کے ساتھ پھر بھی کوئی علاقہ ہے، ان کے بزرگوں، خاوندوں، والد یا چچا تایا کی پارٹی کے ساتھ کوئی وابستگی، کوئی قربانی ہے۔
پی ٹی آئی نے نامزدگی میں کون سا اصول اپنایا کہ وہ اس روایتی موروثیت کے معیار سے بھی نیچے جاگری ہے ۔ اٹک سے ملک امین اسلم کی جگہ عمران خان کو ان سے بڑا ایلکٹ ایبل میجر (ر) طاہر صادق کی صورت مل گیا جنہیں قومی اسمبلی کی دو ٹکٹس عطا ہوئیں۔ دل برداشتہ سہیل کمبڑیال پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ گئے جو 2011ءمیں پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی میں حلقہ کی سیاست کرنے والے جغادری سیاستدانوں کے سیل رواں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر اصول، ہر نظریہ اور ہر عہد اس سیاسی سیلاب میں بہہ گیا۔ یہ بات کہی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی میں ’تھوک کے بھاﺅ‘ آنے والے امیدواروں کا انتخابی ٹکٹس پر ملاکھڑا یقینی ہے۔ ایک حلقے سے کتنے امیدوار مدمقابل ہوں گے اور کتنوں کو پارٹی ٹکٹ مل پائے گا۔ اور اتنے صابرین کون ہوں گے جو ٹکٹ نہ ملنے کی صورت ’نظریاتی‘ بن کر ’محرومی‘ کا درد سہہ پائیں گے۔ لاہور سمیت دیگر علاقوں میں پی ٹی آئی کے بعض سینئر رہنماﺅں پر ٹکٹوں کی سودے بازی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں لاہور میں تقریب کے دوران سینئر پارٹی رہنما کے خلاف ٹکٹ فروخت کرنے کے نعرے لگائے گئے اور احتجاج کیا گیا۔ اب یہ احتجاج ملک گیر شکل اختیار کرچکا ہے۔
ننکانہ صاحب سے اس کالم نگار کے ایک عزیز میدان میں ہیں‘ رانا ذوالقرنین دھرنے اور بنی گالہ محاصرے کے دوران عمران خان کے شانہ بشانہ لاٹھیاں کھاتے رہے ہیں اب عمران اس کی شکل بھول چکے ہیں۔ اسی طرح لائل پور عرف فیصل آباد سے علی سرفراز کی جگہ اس کی ساری قربانیاں بھلا کر کسی نامعلوم چنیوٹی شیخ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ بزرگ مسلم لیگی میاں زاہد سرفراز ‘ جو اب تک مادر ملت فاطمہ جناح کے شانہ بشانہ جنرل ایوب ‘ نواب آف کالاباغ اور بھٹو مرحوم سے پنجہ آزمائی کی جزئیات تک فخر سے بیان کرتے ہیں ٹکٹوں پر ہونے ڈنڈہ ڈولی پر کڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک ایسی خاتون امیدوار ہیں جنہیں کوئی جانتا نہیں ہے۔ تحریک انصاف شمالی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل صاحبزادہ عمر فاروق گل نے قیادت کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ بڑی زیادتی قرار دیا۔دربار عالیہ موہڑہ شریف میں منعقدہ اجلاس میں پارٹی کا رکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ا±ن کاموقف تھا کہ عام انتخابات 2018کے سلسلے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ٹکٹوں کا فیصلہ میرٹ پر نہیں کیا جس سے کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے خصوصا نوجوان سخت مایوس ہیں۔
آخری اطلاعات آنے تک پارٹی ٹکٹوں سے محروم امیدواروں کے حامی کارکنوں کا بنی گالہ جانے والے مختلف راستوں پر احتجاج جاری ہے۔وہاں دیگیں پک رہی ہیں۔ خیمے لگ چکے ہیں اور دھرنا سٹائل پر احتجاج کا رنگ جم چکا ہے۔ خان بہادر ڈوگر نے کہا کہ دھرنے والوں کو 126 دن ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا اپنی جیب سے کھلایا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ عوامی تحریک کے کارکنوں کو بھی کھاناکھلایا پھر بھی مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔
عمران خان 5 حلقوں سے الیکشن لڑیں گے۔ بنوں، میانوالی، لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے وہ انتخاب میں حصہ لینے نکلے ہیں۔ اسلام آباد میں ماضی کی دیہی اور شہری کی دو نشستوں کے مقابلے میں اب تیسری نشست بھی وجود میں آچکی ہے۔ اس پر چوہدری الیاس مہربان نے 2013ءکے انتخابات میں خاصے ووٹ اٹھائے تھے۔ اس مرتبہ عمران خان کے قریبی دوست اوربنی گالہ اراضی کی خرید میں اہم کردار اداکرنے والے عامر کیانی اس حلقہ سے انتخابی امیدوار تھے۔ حلقہ میں شدید کشیدگی کی بنیاد پر اب عمران خان خود اس نشست سے حصہ لے رہے ہیں۔
انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پراعتراضات اورشکایات کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل کردہ پی ٹی آئی نظرثانی بورڈ کو 400 سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ سب سے زیادہ شکایات پنجاب سے موصول ہوئیں۔ پارٹی رہنما ڈاکٹر زرقا نے اپنی ہی پارٹی کی انتخابی امیدواروں کے خلاف اعتراض اٹھایا کہ ڈاکٹرمنزہ حسن نے اپنے کاغذات نامزدگی میں دہری شہریت اور اثاثہ جات چھپائے۔ ملک اشرف سوہنا سمیت انتخابی ٹکٹوں سے محروم امیدواروں نے درخواستیں دی ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹکٹوں کے اعلان پر بے شمار حلقوں میں امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ لڑائی جھگڑے شروع ہیں۔گوجرانوالہ میں ٹکٹ ملنے کے بعد میاں طارق محمود کے پوسٹرز پر سیاہی پھینک دی گئی اور بے شمار جگہ پر ان کے پوسٹرز اور بینرز پھاڑ دیے گئے۔ کچھ حلقوں سے یہ اطلاعات آئیں کہ ناکام امیدواروں نے پارٹی چھوڑ کر مختلف پارٹیوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سابق جماعتی فیاض الحسن چوہان کی شیخ رشید سے گالم گلوچ ہوئی، ٹاک شوز میں ہر حد سے گزر جانے والے فیاض الحسن چوہان کو پہلے ٹکٹ ملی پھر جھنڈی کرادی گئی۔
چوہدری نثار کو عمران خان نے آسراکرایا تھا لیکن اب وہ اس عہد سے پھر گئے۔ فرمایا تھا کہ نثار پی ٹی آئی جوائن کرلیں گے۔ نہ بھی شامل ہوئے تو مقابلے پر امیدوار کھڑا نہیں کریںگے۔ سرور خان کے لئے تو یہ قیامت کا درجہ رکھتا ہے۔اب پی ٹی آئی کا تازہ فرمان آیا کہ نثار کا مقابلہ کیاجائے گا۔ اس تبدیلی کے بعد اب کون سی تبدیلی کا خواب دیکھاجاسکتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔