بدھ ‘ 5 شوال 1439 ھ ‘ 20 جون 2018ء
ارسلان چودھری کا مقدمہ جلد کھولا جائے:تحریک انصاف
جب سے (ر) جسٹس افتخار چودھری نے عمران کے چھابے میں ہاتھ ڈالا ہے‘ تحریک انصاف میں کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ ریحام خان تو عورت ہے‘ جذباتی ہے‘ وہ جھوٹ سچ کہہ سکتی ہے مگر چودھری افتخار صاحب تو مکمل مرد ہیں‘ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سب سے بڑے جج رہے ہیں۔ قانون کے تمام اسرارورموز سے واقف ہیں۔ عدالتوں کی تمام اونچ نیچ‘ قانون داﺅ پیچ سے باخبر ہیں۔ انہوں نے جو کیس بھی دائر کیا‘ پورے نرت بھاﺅ کے ساتھ کیا ہوگا۔ اب اس کے جواب میں فواد چودھری بھی ختم ٹھونک کرمیدان میں آ گئے وہ مشرف دور سے ہی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کیخلاف سرگرم تھے۔ لگتا ہے آج بھی ہیں۔ کبھی کہتے ہیں افتخار چودھری کے خلاف کرپشن کے کیس کھولے جائیں۔ کبھی کہتے ہیں ارسلان چودھری کا مقدمہ جلد کھولا جائے۔ لگتا ہے ارسلان کا معاملہ بھی پھر اچھلے گا۔
گر یونہی روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویران ہو گئیں
صرف فواد چودھری ہی نہیں پوری تحریک انصاف متحرک ہے۔ سوشل میڈیا پر کھلاڑی اپنے کپتان کے حوالے سے بات کرنے والوں کی جو حالت کر رہے ہیں‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ یوں تحریک والوں کو اب ریحام کےساتھ ساتھ چودھری افتخار کیخلاف بھی محاذ سنبھالنا پڑ رہا ہے۔ تیسرا محاذ بھی جلد کھلنے والا ہے۔ وہ ہے پی ٹی آئی کی ٹکٹ نہ ملنے والے امیدواروںکے حامیوں کا جوابی ردعمل وہ بھی خاصہ کرارا سامنے آئے گا ویسے بھی مشہور کہاوت ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ یہاں تو لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا معاملہ سامنے آنے کو ہے۔
٭........٭........٭
خواجہ سراﺅں کے تحفظ کیلئے خصوصی عدالتیں بنائیں گے: چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرف سے خواجہ سراﺅں کو شناختی کارڈز کی فراہمی کیلئے کمیٹی کے قیام کے فیصلے کا سن کر تو خواجہ سرا خوشی سے جھوم اٹھے ہیں‘ کئی نے تو تالیاں بجاتے‘ ٹھمکے لگاتے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو آج رات نیند نہیں آئے گی‘ کیا معلوم وہ رات بھر ....
اج خوشیاں دے نال مینوں چڑھ گئے نے حال
میری اتھری جوانی آج پاندی اے دھمال اوئے
کے دھن پر رقص کرتے رہے ہوں۔ مگر اب جو چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ ان کیلئے خصوصی عدالتیں بنائیں گے‘ اس پر عام لوگ شاید چیں بجبیں ہوں۔ کیونکہ اب اس بات کی شہ پا کر کل کو تاجر‘ کسان‘ دکاندار‘ ریڑھی بان‘ سب پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر اپنے لئے بھی علیحدہ خصوصی عدالتوں کے قیام کے مطالبات لیکر احتجاج کرتے نظر آئے تو پھر کیا ہو گا کس کس کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر خواجہ سراﺅں کا بھی کیا بھروسہ کل وہ بھی اپنے لئے علیحدہ اپنی برادری کا وکیل اور جج بنانے کا بھی مطالبہ کر بیٹھیں تو یہ مطالبے کون پورے کرے گا۔ یہ تو عرب بدو اور اس کے اونٹ کی کہانی نہ بن جائے جس میں آخرکار بدو بے چارا باہر اور اونٹ خیمہ کے اندر ہوتا ہے۔ خواجہ سراﺅں کا تحفظ درست مگر وہ خود بھی تو اپنی اداﺅں پر ذرا غورکریں سڑکوں پارکوں میں شادیوں میں کیا کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ا گر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی....
٭........٭........٭
کراچی سے بنکاک جانے والی پرواز میں بھکاری خیرات مانگنے داخل ہو گیا
ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ سڑکوں‘ چوراہوں‘ بازاروں میں بھکاریوں کی یلغار سے تو سب کا پالا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بسوں‘ ریل گاڑیوں میں بھی یہ مخلوق لوگوں کو تنگ کرنے پہنچ جاتی ہے۔ یہ تو ریلوے سٹیشنوں پر چیکنگ سخت ہونے کے بعد ان کی آمدورفت کم ہوتی ہے مگر چھوٹے سٹیشنوں پر یہ مخلوق بآسانی اپنا کام دکھا جاتی ہے۔ اب یہ جو واقعہ کراچی ایئرپورٹ پر سامنے آیا ہے‘ اس پر عوام کو حیرت ضرور ہوئی ہوگی۔ صرف عوام کو کیا‘ خواص کو بھی فکر لاحق ہوگی کہ یہ اتنی سکیورٹی اور خفیہ کیمروں کی موجودگی میں بھکاری کس طرح ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوا۔ پھر تمام لاﺅنج پار کرتا ہوا اپنے شاہی لباس میں کشکول اٹھائے کس طرح رن وے کراس کرتے جہاز تک آیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہوا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ایئرہوسٹس نے اسے جہاز کے اندر بھیک مانگتے ہوئے صدائیںلگاتے ہوئے پکڑ لیا اور اس کی منتیں کرنے لگی کہ بابا نیچے اترو یہ جہاز ہے‘ یہاں بھیک مانگنا منع ہے۔ یہ غالباً اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے کہ کوئی بھیک مانگنے جہاز کے اندر جا پہنچا۔ اگر یہ ہمارے ایئرپورٹس کی حالت ہے جہاں قدم قدم پر سکیورٹی ہوتی ہے تو باقی مقامات کا خدا ہی حافظ ہو سکتا ہے۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود اس انٹرنیشنل فقیر کو اتنی بڑی کامیابی مبارک ہو۔
٭........٭........٭
زرداری نے بلاول ہاﺅس کراچی کی قیمت 30 لاکھ روپے درست بتائی ہے: مصطفیٰ نواز کھوکھر
کون کہتا ہے جھوٹ کے پاﺅں نہیںہوتے۔ کھوکھر صاحب کے بیان کے بعد تو نہ صرف جھوٹ کے پاﺅں بلکہ ہاتھ‘ چہرہ اور جسم بھی نظر آنے لگا ہے۔ اس وقت اگر کسی کے پاس10 تولے سونا ہے تو صاف مطلب ہے اس کی قیمت سکہ رائج الوقت کے مطابق 6 لاکھ روپے بنتی ہے چاہے وہ سونا آج سے 80 سال قبل انہوں نے 500 روپے میں خریدا ہوگا۔ یہی حال بلاول ہاﺅس کراچی کا ہے۔ وہ جہاںہے‘ اس کی قیمت جب وہ بنایا گیا‘ اس دور میں بھی 30 لاکھ روپے سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ آنکھوں دیکھی بات ہے‘ صدیوں پرانا قصہ نہیں جو کھوکھر صاحب اپنے چیئرمین کے حق میں گھڑ کر ان کو پاکدامن بنانے کے چکروں میں ہیں۔ آج سے 30 یا 40 سال قبل بھی کلفٹن میں زمین اور بنگلوں کی قیمت کروڑوں میں تھی۔ تو آج کراچی میں 150 گز کا گھر 30 لاکھ میں نہیں ملتا۔ اگر ایسا ہی ہے تو کھوکھر صاحب اسکی فروخت کا اعلان کریں لاکھوں لوگ اسے ڈبل ٹرپل قیمت پر 90 لاکھ میں بھی خریدنے کو تیار مل جائیں گے۔ جب یہ بنا اس وقت بھی زرداری صاحب لاکھوں روپے مالیت کی گاڑی میں پھرتے تھے تو گھر اتنا سستا کیسے بنا لیا یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔
کراچی کلفٹن کا یہ محل نما گھر بھی اگر بحریہ والے محل کی طرح کسی نے تحفہ میں دیا ہو تو اور بات ہے۔ اس لئے زرداری صاحب کو اس کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔
٭٭........٭٭........٭٭