ٹکٹوں کی تقسیم: تحریک انصاف کے کارکنوں کا شدید احتجاج
ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی کارکنوں کا احتجاج شدت اختیار کر گیا۔ بنی گالہ، اسلام آباد، گجرات، منڈی بہاﺅ الدین، شاہ کوٹ اور سیالکوٹ کے علاوہ کئی شہروں، قصبوں میں کارکنوں نے مظاہرے کئے اور الزام لگایا کہ ٹکٹ دیتے وقت جینوئن کارکنوں کو نظرانداز کر کے ان افراد کو ٹکٹ دیئے گئے جن کی پارٹی کیلئے کوئی خدمات نہیں۔ بنی گالہ میں ناراض کارکنوں کی ایک بھاری تعداد عمران خان کی رہائش گاہ تک پہنچ گئی، جنہیں ہٹانے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ کارکن اس قدر مشتعل تھے کہ انہوں نے عمران خان کی پرزور یقین دہانیوں کے باوجود مطالبات سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔
پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی 270 میں سے 240 نشستوں پر امیدوار کھڑے کر رہی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر تحریک انصاف کی قیادت کو کارکنوں کے جس ناخوشگوار ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے پیدا کرنے میں خود پارٹی کی قیادت کے رویوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں 2013ءکے انتخابات کے بعد کا تمام عرصہ اپوزیشن پارٹی کا مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے احتجاج اور کردارکشی کی سیاست کی۔ اس طرز کی سیاست میں بلند بانگ دعوے کرنے کے علاوہ حامیوں کو یہ بھی یقین دلانا پڑتا ہے کہ آئندہ انتخابات ہم ہی جیتیں گے اور یہ کہ تمام ادارے ہماری پشت پر ہیں۔ پھر الیکٹ ایبل افراد کو پھسلانے کیلئے سو دن کے شیڈول کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھانے کا کارنامہ بھی ”انجام“ دیا گیا، اس نے بعض افرادکی توقعات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ چنانچہ پانچ سال کے عرصے میں ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ جنہوں نے مرنا جینا اقتدار سے وابستہ کر رکھا ہے وہ اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر تحریک کا رخ کرنے لگے۔ جتنے لوگوں کو ٹکٹ دینے کے وعدے کر لئے تھے اتنی سیٹیں ہی نہیں تھیں۔ پھر، ٹکٹ دینے کی واحد قابلیت یہ پیش نظر رکھی گئی کہ ٹکٹ اسے دیا جائے جو جیت سکتا ہو۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ ”الیکٹ ایبل“ کا ذاتی کردار کیسا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بہت سے مخلص کارکن بری طرح نظرانداز ہوئے۔ آج جو لوگ ٹکٹوں کی تقسیم کےخلاف مظاہرے اور احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قربانیوں اور جدوجہد کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی گئی اور اس پر ستم یہ کہ اب انہیں چکمہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پٹیشن دائر کریں اگر اعتراضات درست پائے گئے تو ایسے ٹکٹ واپس لے کر حق دار افراد کو دیئے جائینگے مگر عام کارکن کویہ تومعلوم ہی نہیں کہ انتخابی قوانین کے تحت کاغذات نامزدگی کی وصولی کی آخری تاریخ تک ٹکٹ یافتہ امیدواروں کی فہرست جب ایک دفعہ الیکشن کمشن کے حوالے کر دی جائے تو اسے واپس لینا یا اس میں ردوبدل کرنا ناممکن نہیں رہتا۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے بھی اسکی وضاحت کردی ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ خان صاحب ان مخلص کارکنوں کو ادھر ادھر کی باتوں سے بہلانے پھسلانے کی بجائے سیدھی طرح بتا دیں کہ اب پارٹی ٹکٹوں میں تبدیلی ممکن نہیں‘ پارٹی کارکنوں کو تلقین کی جائے کہ وہ یہ سمجھ کر اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں انتخابات پرصرف کر دیں کہ یہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ امیدوار کی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی جیت کا سوال ہے۔