مسلم لیگ (ن) کے اندر چودھری نثار کا برادران یوسف والا کردار
مسلم لیگ (ن) کے ناراض سینئر رہنما چودھری نثار علی خان نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر اپنے آبائی حلقہ چکری چونترہ میں عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس کے ساتھ مخلوق خدا ہو، اسکی ”کنڈ“ نہیں لگتی۔ مخالفین میرا راستہ نہیں روک سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیگم کلثوم نواز کی خرابی¿ صحت کے باعث میاں نوازشریف کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرینگے۔ اسکے باوجود انہوں نے میاں نوازشریف پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ نوازشریف ہم سے زیادہ اہل نہیں تھے تاہم حاجی نواز کھوکھر کے گھر میٹنگ میں شریک 20 اکابرین نے میاں نوازشریف کو آگے کر دیا۔ آج ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نوازشریف کے ساتھ نہیں۔ انکے بقول انہوں نے 34 سال میاں نوازشریف کا بوجھ برداشت کیا ہے۔ نوازشریف کا ان پر کوئی قرض نہیں وہ نہ ضمیر فروش اور نہ ہی بکاﺅ مال ہیں جبکہ وہ کسی کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونےوالے چاپلوس بھی نہیں۔ انہوں نے میاں نوازشریف سے اپنی راہیں الگ ہونے کا امکان ظاہر کیا اور کہا کہ انہیں جس طرح نظر انداز کیا گیا وہ عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں، تاہم وہ کبھی ایسی سیاست نہیں کرینگے جس پر لوگ کہیں کہ یہ دو نمبر لیڈر ہے۔ انکے بقول انہوں نے ساری زندگی حق اور سچ کا پرچم بلند کیا اور کرتے رہیں گے۔ وہ باعزت راستہ نکالیں گے اور جو بھی قدم اٹھائیں گے سب کو بتا کر اٹھائیں گے۔ انکی تقریر کے دوران پنڈال میں سے کچھ لوگوں نے ”گو نواز گو“ کے نعرے بھی لگائے تاہم چودھری نثار نے انہیں یہ نعرہ لگانے سے روک دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی سیاسی جماعت میں پارٹی پالیسی اور اقدامات پر اختلافات ہو سکتے ہیں تاہم ان اختلافات کا اظہار پارٹی کے اندر ہی پارٹی کے تنظیمی اجلاسوں کے دوران کیا جاتا ہے اور جب کسی پارٹی عہدیدار یا رکن کے اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ پیدا ہونےوالے اختلافات پارٹی کے اندر طے نہیںہو پاتے تو پارٹی قیادت سے اختلافات رکھنے والے عہدیدار کے پارٹی میں موجود رہنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز برقرار نہیں رہتا۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پارٹی قیادت سے اختلافات کرنےوالے ارکان اس پارٹی کو خیر باد کہہ کر اپنی سیاسی سوچ کے مطابق کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے یا اپنی الگ پارٹی تشکیل دیتے رہے ہیں تاہم پارٹی کے اندر رہتے ہوئے پارٹی کی قیادت اور اسکی پالیسیوں کو برا بھلا کہنے کی روائت چودھری نثار علی خان نے ڈالی جو کسی سیاسی اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتی۔ ماضی میں اس حوالے سے ان کا طرز عمل پارٹی کے اندر ایسا نظر آتا رہا ہے جیسے وہ اپنی اہمیت جتا کر پارٹی قیادت کو بلیک میل کر رہے ہوں جبکہ پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد تو چودھری نثار علی خاں مسلم لیگ (ن) کے اندر رہتے ہوئے بھی پارٹی قیادت کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آ گئے اور انہوں نے بالخصوص میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی پارٹی کے اندر سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اگر وہ پارٹی قیادت کے ساتھ اختلافات کو اصولی اختلاف سے تعبیر کرتے ہیں تو اس بنیاد پر ان کا پارٹی میں شامل رہنے کاکوئی جوازباقی نہیں رہتا تھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسی وقت مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر اپنی سیاسی سوچ کے مطابق اپنے نئے سیاسی سفر کا تعین کر لیتے مگر انہوں نے بجائے اسکے‘ ان حالات میں پارٹی قیادت کوکھلم کھلا تنقید کانشانہ بنانا شروع کر دیا جب پارٹی پہلے ہی مشکل صورتحال سے دوچار تھی جبکہ یہ صورتحال ان سے پارٹی قیادت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونے کی متقاضی تھی۔ اس وقت جبکہ بیگم کلثوم نواز لندن کے ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے ان حالات میں بھی پارٹی قیادت کو نہیں بخشا اور اپنے جلسے میں ان پر اپنے ماضی کے احسانات جتانا بھی ضروری سمجھا۔ جب انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ انہوں نے 34 سال تک نوازشریف کا بوجھ اٹھایا ہے تو اسکے بعد بیگم کلثوم نواز کی خرابی صحت کے باعث انکی مزید کچھ نہ کہنے کی بات ایک بھونڈا مذاق ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے پارٹی قیادت پر تنقید کا شوق پورا کرنا تھا تو پہلے وہ خود کو پارٹی سے الگ کر تے، پھر بے شک وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے۔ تاہم پارٹی کے اندر رہتے ہوئے وہ جن حالات اور جس عامیانہ انداز میں میاں نوازشریف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں خود ہی جائزہ لے لینا چاہئے کہ ان کا طرز عمل کون سی سیاسی اخلاقیات کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان کا یہ کردار توبرادران یوسف والا ہی نظرآتا ہے۔