مخالفین نے بے جا دھول اڑائی‘ نادرا سے بھی بے احتیاطی ہوئی
ووٹرز ڈیٹا لیک: الیکشن کمیشن کی نادرا سے وضاحت طلب‘ پی ٹی آئی کا پٹیشن دائر کرنے کا اعلان‘ مواد بے ضرر تھا‘ نادرا کا موقف
ووٹرز کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے معاملہ پر الیکشن کمیشن نے چیئرمین نادرا کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نادرا نے الیکشن کمیشن کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ نادرا حکام نے ووٹرز کا ڈیٹا غیر متعلقہ افراد کو جاری کیا ہے۔ ڈیٹا الیکشن کمیشن کو موصول ہونے سے پہلے غیرمتعلقہ افراد تک کیسے پہنچ گیا۔ نادرا ذمہ داروں کےخلاف کارروائی کرے۔ معاہدہ کے تحت نادرا ووٹرز کا ڈیٹا کسی سے شیئر نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹرز کا خفیہ ڈیٹا نہیں صرف فہرستوں سے متعلق معلومات لیک ہوئیں۔ ڈیٹا کے غیر مجاز افراد کے ہاتھ لگنے پر خدشات ہیں۔ دریں اثناءحکام نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراض پر وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مواد اخبار میں چھپا انگریزی روزنامہ میں چھپنے والے ڈیٹا سے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ الیکشن کمیشن نے بعض ٹی وی چینلز پر نشر ہونےوالی اس خبر کے تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے نادرا سے ڈیٹا لیکس پر وضاحت طلب کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی کوئی بھی درخواست تاحال الیکشن کمیشن کو موصول نہیں ہوئی۔ تاہم الیکشن کمیشن نے نادرا کو جو خط لکھا ہے وہ کسی اور معاملہ کے حوالہ سے ہے جس کے مطابق نادرا سے پوچھا گیا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ 25 اور 28 مئی کے ایک اخبار میں انتخابی فہرستوں کے بارے میں اعداد و شمار کمیشن کی اجازت کے بغیر کیوں شائع ہوئے۔ نادرا حکام کا مزید کہنا ہے کہ ووٹرز ڈیٹا بیس کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو مناسب وقت پر جواب دیا جائیگا۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیئرمین نادرا عثمان مبین کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ نے چیئرمین نادرا عثمان مبین کیخلاف الیکشن کمیشن جانے کا فیصلہ کیااور پٹیشن بھی تیار کر لی ہے۔پٹیشن میں مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ عثمان مبین کو ن لیگ نے تعینات کیا تھا اور انہوں نے ن لیگ کو الیکشن جیتنے میں مدد کیلئے ڈیٹا فراہم کیا تھا۔انکی موجودگی میں صاف اور شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی کے پروگرام میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنماﺅںنے چیئرمین نادرا کو عہدے سے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے۔
ایک انگریزی اخبار میں نادرا کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر شائع ہونیوالی رپورٹوں میں غیرمسلم ووٹرز کی تعداد میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے انکی تعداد بتائی گئی ہے‘ اسکے مطابق مسیحی ووٹرز کی تعداد ساڑھے سولہ لاکھ کے قریب‘ احمدی پونے دولاکھ‘ ہندو پونے 18 لاکھ‘ بہائی 31 ہزار‘ بدھ 18 سو‘ سکھ 9 ہزار‘ پارسی چار ہزار بتائے گئے ہیں۔ یہودی ووٹرز کی تعداد بیان نہیں کی گئی جبکہ 2013ءکے انتخابات میں انکی تعداد 809 ظاہر کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں نادرا کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ 46 ملین کے قریب نوجوان ووٹرز انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرینگے۔ نادرا نے انگریزی اخبار کو ڈیٹا فراہم کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بجا دعویٰ کیا ہے کہ اس سے کسی سیاسی پارٹی کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح اس ڈیٹا سے کسی پارٹی کو نقصان بھی نہیں ہو سکتا۔ خود الیکشن کمیشن نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ووٹرز کا خفیہ ڈیٹا لیک نہیں ہوا صرف فہرستوں سے متعلق معلومات لیک ہوئی ہیں۔
حالیہ دنوں اداروں کا عمومی رویہ دیکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی شکایت یا واویلا کرنے پر یہ سخت اقدام اٹھاتے نظر آتے ہیں تحریک انصاف کے شکوے شکایت جائز بھی ہو سکتے ہیں مگر اسکی قیادت کان میں پھونکی گئی بات کی تصدیق بعد میں کرتی ہے‘ احتجاج کا اعلان فوراً کردیتی ہے۔ اب نادرا کیخلاف مذکورہ معلومات کے حوالے سے طوفان کھڑا کردیا گیا۔ یہ معلومات پچیس روز قبل شائع ہوئیں‘ اتنے دن خاموشی کیوں؟ چیئرمین نادرا کو محض اس لئے ہٹانے کا مطالبہ موزوں نہیں کہ انکی تعیناتی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کی تھی۔ تعیناتی و تقرر پر اعتراضات کی زد میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی سمیت آرمی‘ نیول اور ایئرچیف بھی آسکتے ہیں۔ دیگر درجنوں سول اداروں کے ہیڈ بھی مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کے مقرر کردہ ہیں۔
انگریزی اخبار میں شائع ہونیوالی نادرا کی فراہم کردہ معلومات نادرا کے موقف کے مطابق بادی النظر میں بے ضرر ہیں‘ ان سے مسلم لیگ (ن) یا کسی بھی پارٹی کو انتخابات جیتنے میں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ نادرا کا انتخابات کے انعقاد میں کوئی براہ راست کردار نہیں ہے‘ یہ اتھارٹی کس طرح انتخابات پر اثرانداز ہو سکتی ہے؟ تحریک انصاف کی طرف سے اس کیخلاف طوفان اٹھانے کے بعد تو اسکی انتظامیہ انتخابات کے حوالے سے کسی بھی کردار میں مزید محتاط ہوچکی ہوگی۔ اسکے حصے میں اب تک آنیوالی ”نیک نامی“ ہی کافی ہے۔
ووٹرز کی تفصیلات جاری کرنے کی پاداش میں تحریک انصاف اسکی انتظامیہ چیئرمین نادرا کو انکے عہدے سے ہٹانے کیلئے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ خود الیکشن کمیشن نے بھی اسی حوالے سے نادرا سے وضاحت طلب کی ہے۔ رٹ پٹیشن دائر ہونے اور وضاحت آنے کے بعد الیکشن کمیشن قانون کے مطابق فیصلہ کریگا۔ مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین نادرا کا دفاع کرنے سے نہ صرف گریز کیا بلکہ ایک ٹی وی پروگرام میں سابق وزیر کیڈطارق فضل نے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چیئرمین نادرا کو عہدے سے ہٹانے پر اتفاق کیا ۔ ایسا اتفاق رائے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کے زمرے میں آسکتا ہے۔ بہرحال نادرا کو کئی وضاحتیں اور کئی سوالات کے جواب بھی دینا ہونگے۔
اسی نادرا کی طرف سے پاکستانیوں کا ڈیٹا امریکہ کی کمپنیوں کو فراہم کرنے کی خبروں پر پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے رواں سال اپریل میں سخت نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نادرا سے وضاحت طلب کی تھی۔ نادرا کی طرف سے انگریزی اخبار کو ڈیٹا فراہم کرنا امریکی کمپنیوں کو فراہم کی گئی معلومات کی طرح کسی طورسنگین نہیں ہے مگر اصولی طور پر نادرا الیکشن کمیشن کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت اس سے بھی کم حساس معلومات فراہم کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ بلاامتیاز اسکے کہ جاری کردہ معلومات حساس ہیں یا نہیں‘ نادرا کو کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے کی کیا مجبوری تھی۔ اگر اسکی طرف سے قومی مفاد سمجھ کر معلومات فراہم کی گئی تھیں تو تمام اخبارات کو جاری کرنے میں زیادہ قومی مفاد وابستہ تھا۔ نادرا کے حکام کی طرف سے گناہ بے لذت کا ارتکاب کیا گیا جو خود اسکی بدنامی کا باعث بنا۔ اسی بناءپر چیئرمین نادرا ان دی لائن آف فائر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن انتخابات پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے مشکوک بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔