چند دن پہلے میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک غیر ملکی کمپنی نے پاکستانی کارکنوں سے کام کرانے سے انکار کر دیا اور حکومت پاکستان سے اجازت مانگی کہ کمپنی کو اپنے ملک سے کارکن منگوانے کی اجازت دی جائے جبکہ حکومت پاکستان کا موقف یہ تھا کہ پاکستانی لیبر کو مختلف منصوبوں پر کام دیا جائے۔ غیر ملکی کمپنی نے پاکستانی لیبر کی جگہ اپنے متعلقہ ملک سے کارکن درآمد کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی کارکن کام دلجمعی سے نہیں کرتے وہ کام کے اوقات میں سے بڑا وقت ضائع کر دیتے ہیں جبکہ اہم منصوبے کو مکمل کرنے کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے اس کو مکمل کرنے میں تاخیر سے کمپنی کو بھاری نقصان ہوتا ہے۔ میرے دوست نے مزید بتایا کہ غیر ملکی کمپنی کی طرف سے ہماری حکومت کے نمائندہ کو بتایا گیا کہ پاکستانی کارکن کام کے مقررہ وقت پر نہیں پہنچتے بلکہ وہ تاخیر سے کام کے لئے پہنچتے ہیں۔ پراجیکٹ پر پہنچنے کے بعد وہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ کر پہلے سگریٹ سلگا کر گپ شپ کرتے ہیں پھر وہ کسی قریب ریسٹورنٹ یا کھوکھے سے چائے لانے کے لئے کسی ساتھی کو بھیجتے ہیں۔ چائے آنے میں دس پندرہ منٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ فرض کریں اگر آپ آدھے گھنٹے کی تاخیر سے کام شروع کرتے ہیں تو ہفتے میں کئی سو اوقات کار ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس پر بس نہیں ہوتا کھانے اور نماز کا وقفہ بھی کیا جاتا ہے۔ نماز تو شاید چند ہی کارکن ادا کرتے ہیں لیکن نماز کے نام پر ایک گھنٹہ تو کم سے کم ضائع کیا جاتا ہے۔ میرا دوست جو مجھے یہ قصہ سنا رہا تھا کہنے لگا کہ غیر ملکی کمپنی کے نمائندہ نے ہماری حکومت کے نمائندے کو حساب کر کے یعنی کلکولیٹ کرکے بتایا کہ اگر وہ پاکستانی کارکنوں کو کام پر لگائے گا تو ان کے وقت ضائع کرنے کی عادت سے اسے بھاری نقصان ہوگا۔اس بات میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے ہماری بری عادت بن گئی ہے کہ ہم اپنے قومی اوقات کار کی پابندی نہیں کرتے بلکہ ان میں سے کئی گھنٹے کسی نہ کسی بہانے ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کو جب سخت حالات کا پابند ڈسپلن ہو کر کام کرنا پڑتا ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں کام چوی کی عادت نے انہیں کتنا بگاڑ دیا ہے اسی بگاڑ کی انہیں قیمت چکانا پڑتی ہے۔
وقت ضائع کرنے کی بات ہو رہی ہے تو عید الفطر کے تہوار پر نظر ڈال لیں۔ سرکاری طور پر عیدالفطر کی چار چھٹیاں تھیں جو جمعہ سے پیر تک تھیں لیکن منگل کے روز ملک بھر میں سرکاری نیم سرکاری حتیٰ کہ نجی اداروں میں کارکنوں کی تعداد بہت کم تھی۔یہی حال مارکیٹوں کا تھا۔ جہاں بڑی تعداد میں کاروباری مراکز بند تھے۔ تاجر حضرات پانچویں دن بھی عید منانے میں مصروف تھے۔ امکان ہے مزید ایک دو دن مارکیٹیں پوری طرح نہیں کھل پائیں گی۔ عیدالفطر کے علاوہ عیدالاضحیٰ پر بھی ہر سال یہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کئی کئی دن سرکاری اور نجی دفاتر اور کاروباری مرکز بند رہتے ہیں۔ میرے کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ دکاندار اور کاروباری حضرات عید کے موقع پر اتنا کما لیتے ہیں کہ وہ اگر ہفتہ دس دن اپنا کاروبار بند رکھیں تو انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مختلف تہوار خاص طور پر عیدالفطر منانے کا جو نیا رحجان سامنے آیا ہے وہ بڑا تکلیف دہ ہے۔ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی عیدالفطر کے دن اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی ملاقات پر توجہ دیتے تھے۔ دوسرے شہروں میں بسنے والے اپنے عزیزوں کو وزٹ کرتے تھے، ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے تھے لیکن اب تو عید کے دوسرے دن سے لوگ گاڑیوں پر بیٹھ کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ پیسے دھیلے والے لوگ سیاحتی مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ پنجاب اور سرحد کے لوگ مری، کاغان ناران کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ ان علاقوں تک رسائی دینے والی سڑکوں پر کاروں اور موٹرسائیکلوں کا جو سیلاب آتا ہے وہ زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں اور موٹرسائیکل جب کسی ایک سیاحتی مرکز کا رخ کرتے ہیں تو ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ راقم نے عید الفطر کے دوسرے دن بے ہنگم ٹریفک کا جو مظاہرہ دیکھا وہ پریشان کن تھا۔ ٹریفک کا انتظام کرنے والی پولیس گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں خاص طور پر کم سن موٹرسائیکل سواروں کے اژدھام کے سامنے بے بس تھے۔ یہ سلسلہ منگل تک جاری تھا شاید یہ ایک دو روز مزید جاری رہے۔ دوسری قومیں تہوار مناتی ہیں لیکن وہ مقررہ دنوں کے اندر اس تہوار کو اختتام تک پہنچاتی ہیں۔ وہ ان تہواروں کو ڈسپلن کے ساتھ مناتی ہیں اور قانون کا خیال رکھتی ہیں اور اس بات کا انہیں احساس ہوتا ہے کہ دوسروں کو ان کی وجہ سے کوئی پریشانی نہ ہو لیکن ہمارے ہاں تو عید اور دوسرے قومی تہواروں میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور قانون شکنی اور دوسروں کیلئے پریشانی پیدا کرکے بھی مسرت محسوس کی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024