پشاور بس ریپڈ اہم منصوبہ، 6 ماہ کے اندرمکمل کیا جائے: وزیراعلی خیبر پی کے
پشاور(بیورو رپورٹ) وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کی تکمیل کی مدت بعض ٹینڈرز میں 6 کی بجائے 8 مہینے درج کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شہری ٹرانسپورٹ کا یہ اہم ترین منصوبہ معیار کے مطابق ہر صورت میں چھ مہینے کے اندر یا اس سے پہلے مکمل ہونا چاہئے ۔ انہوں نے تاخیر کی صورت میں ذمہ داران کو بھاری جرمانے کرانے کی ہدایت کی۔ یہ ہدایت انہوں نے خیبر پی کے اربن موبیلٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ پر وزیراعلیٰ ہائوس پشاور میں منعقدہ پریزنٹیشن کے دوران جاری کی جس میں سینئر وزیر سکندر شیرپاؤ، صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد وزیر، ضلع ناظم ارباب محمد عاصم، وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن برائے پشاور میگا پراجیکٹس شوکت علی یوسفزئی ،وزیراعلیٰ کمپلینٹ سیل کے چیئرمین حاجی دلروز خان، چیف سیکرٹری عابد سعید، ایڈیشنل چیف سیکرٹری محمد اعظم خان اور متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں و حکام کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بنک کے علاقائی ڈائریکٹر کی زیر قیادت مشن نے بطور خاص شرکت کی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر ریپیڈ بس کی برانڈنگ اور لوگو (سلوگن) کی منظوری دی جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک مشن کی درخواست پر منصوبے کے دو حصوں ایچ ون اور تھری کی بولی بعض فنی وجوہات کی بناء پر 19 جون کی بجائے 29 جون سے بڑھانے سے اُصولی اتفاق کیا ۔ البتہ یہ بھی واضح کیا کہ منصوبے کی ہر قیمت پر چھ ماہ یا اس سے پہلے عالمی معیار کے مطابق تکمیل ہونی چاہیے۔ منصوبے کیلئے 42 ارب روپے مہیا کر رہا ہے جبکہ ساڑھے سات ارب روپے کا خرچ صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ انکی ہدایت پر اتھارٹی کے تعمیراتی کام اوربس ریپڈ ٹرانزٹ کے لئے درکار ضروری سٹاف بھرتی کرنے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ بس رپیڈ ٹرانزٹ کے چار پیکجز کی منظوری دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آنے والے وقت میں ٹائم اہم فیکٹر ہو گا۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ یہ پراجیکٹ کو پورے صوبے کوباہم مربوط کرے گا۔ اس لئے ہم نے مستقبل کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔یہ پراجیکٹ سفری سہولیات کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے اسکو دیکھ کر آگے پورے صوبے کے لئے سفری سہولیات کو آسان اور دیرپا بنانا ہے۔اس منصوبے کو چلانے کے لئے عملے کی استعداد کار میں اضافہ ناگزیر ہے جس کے لئے بہترین تربیت کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ آئندہ نسلوں کا پراجیکٹ ہے اور اسی تناظر میں پیش رفت ہونی چاہئے۔