موجودہ امریکہ عرب تعلقات کے مدوجزر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ خلیجی و سعودی فیصلہ سازی کا جائزہ لیا جائے۔ ہم جیسا پاکستانی اگر دو عشروں کے مطالعہ مشرق وسطی کے ذریعے اس نتیجے پر آسانی سے پہنچ گیا تھا کہ امریکہ عربوں سے کھیل کھیل رہا ہے۔ اس سے جمہوریت کے ذریعے مشرق وسطی کی تشکیل جدید میں ناکامی کے بعد مشرق وسطی کی تشکیل جدید کے لئے ’’نیشن سٹیٹس‘‘ کو توڑنے اور ’’جدید‘‘ نئی مختصر عرب ریاستوں کی تشکیل کا منصوبہ اپنا رکھاہے اور ایران اس منصوبے کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے ’’بزرگ شیطان‘‘ سے مکمل مگر دلچسپ افہام وتفہیم رکھتا ہے تو کیا خلیجی و سعودی اذہان کو اپنے ساتھ ہونے والے امریکی و برطانوی پراسرار اس کھیل تماشے کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی؟ قطر کے ساتھ سعودی و خلیجی پرانی عدم مفاہمت امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ ریاض اور ’’اسلامک، عرب، امریکہ کانفرنس‘‘ کے بعد نمودار ہوئی مگر یہ عدم اتفاق قطر کے جغرافیائی طور پر مختصر ترین ریاست ہونے کے باوصف سعودیہ کے جغرافیہ کو توڑ ڈالنے اور آل سعود سے اقتدار چھن جانے کے منصوبے میں امیر قطر الشیخ حمد بن خلیفہ اور ان کے وزیراعظم حماد بن جاسم بن جبر کی کرنل قذافی سے ٹیلی فونک بات چیت کے ریکارڈ ہونے سے ناقابل تردید حقیقت ہے۔ قطر کا چار ممالک نے جو بائیکاٹ کیا ہے اور اس کو ’’مقید‘‘ سیاسی وجغرافیئے کا جو تحفہ دیا ہے اس کے پس منظر میں یہی تاریخی غصہ ہے۔ اقوام متحدہ نے چار عرب ممالک کے قطر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مگر سعودی وزیر خارجہ کا موقف ہے کہ یہ چار ممالک قطر کو ’’نقصان‘‘ نہیں پہنچا رہے۔کیا یہ قطر کو اپنے جارحانہ ایجنڈے کو چھوڑ کر ’’مہذب مختصر ترین ریاست‘‘ بنا کر ’’اچھا‘‘ ہمسایہ بننے کے لئے قطر پر دبائو ہے؟ کیا قطر اپنے پڑوسیوں کے ایجنڈے پر واپس آ جائے گا؟ امکان غالب ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ ہم قطر کا ’’ردعمل‘‘ تصور کرتے ہیں یوں خلیجی و سعودی رویہ درست ماننا پڑتا ہے۔ اگلا پہلو یہ ہے کہ کیا امریکہ نے خلیجی وسعودی فیصلہ سازی کو ’’یرغمال‘‘ بنایا ہے؟ صدر ٹرمپ نے ان مالدار عربوں کو امریکی سیاسی و خلیجی فیصلہ سازوں نے صدر ٹرمپ کی صورت میں ’’نئے‘‘ امریکہ کو اپنے علاقائی و سیاسی ایجنڈے میں نہایت کامیابی سے استعمال کرکے ثابت کر دیا ہے کہ عربوں کو نیست و نابود کرنے کے متمنی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ایران کی صدر ٹرمپ کے ریاض آنے، 50 سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان کے سامنے خطاب اور سعودی وخلیجی امریکی نئی حکمت عملی پر ’’شدید ردعمل‘‘ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ اس بچے جیسا ہے جس نے تگ ودو کے بعد کھلونا (امریکہ) حاصل کیا تھا مگر ابھی وہ اس دلجمعی کے ساتھ کھیل بھی نہ پایا تھا کہ اصل مالک نے کھلونا واپس لیے لیا۔ امریکہ و عرب تعلقات اصل حقیقت ثابت ہو رہے ہیں جب کہ1979 کے انقلاب کے بعد ایران و امریکہ تعلقات اصل حقیقت نہیں تھے۔ بلکہ ’’نئے‘‘ امریکہ و ’’نئے‘‘ ایران کے مابین عربوں کو شکار کرنے اور اسکے جغرافیے کو ’’تقسیم‘‘ اور ’’ہضم‘‘ کرنے کا غیر مستحکم ایجنڈا تھا۔ صدر اوباما نے جو کچھ منافقت اور دھوکہ سعودیہ اور خلیجی مالداروں سے کیا اس پر عرب خاموش رہے تھے اور جب غیر متوقع طور پر ٹرمپ صدر بن گئے تو خاموش تعلقات نے نئی امریکی عرب جہت کو سامنے لانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس مشکل ترین مرحلے میں کامیابی کا سبب بننے والے پہلے کردار کا نام الشیخ محمد بن زید النھیان ہے جو متحدہ عرب امارات کے ولی العہد، 56 سالہ نہایت فعال و متحرک اور بے رحم حکمت کار کی شہرت رکھتے ہیں۔ برطانوی دفاعی ادارے سے تعلیم یافتہ اور ایسے الشیخ زید النھیان کے وارث جس نے عرب ریاستوں کا کامیاب اتحاد تشکیل دیا۔ ریت سے دو چار عرب مختصر ریاستوں کے جغرافیے کو وحدت بخشی۔ اہل رحیم یار خاں سے الشیخ زید النھیان کی شدید محبت لازوال عرب تحفہ دیا ہے۔ یہی 56 سالہ الشیخ محمد بن زید النھیان اصل قوت معرکہ ہیں صدر ٹرمپ کو واپس سعودی و خلیجی کیمپ میں لانے کی دوسری فعال و متحرک شخصیت 31 سالہ ڈپٹی ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔ اگرچہ شاہ سلمان کے کئی بیٹے موجود ہیں مگر شاہ عبداللہ کی طویل بیماری کے دنوں میں ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں نے گورنر ریاض رہنے والے ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کو جس طرح ’’فالتو‘‘ سمجھ کر ’’کارنر‘‘ کیا اس کا شدید رد عمل محمد بن سلمان ہے۔ داخلی اور خاندانی فتوحات میں اس نوجوان نے اپنے باپ کو ’’اصل‘‘ بادشاہ بنا کر کامیاب بنانے کا مشکل ترین راستہ عبور کیا ہے۔ اس کی جوانی میں بھی بہت اعتراض کیا جاتا ہے اور اب اسے ولی عہد محمد بن زید النھیان کے ہاتھوں میں استعمال ہوتا شہزادہ کہہ کر دونوں میں لڑائی کی ترکیبیں تلاش کی جاتی ہیں مگر دونوں نے متحدہ قوت کا روپ پیش کر رکھا ہے اور ٹرمپ کے امریکہ کو جس چابک دستی سے خلیجی و سعودی مفادات کے لئے استعمال کیا ہے امریکہ کو ایرانی کیمپ سے کھینچ کر باہر نکالا اور اسے اپنے مالی وجود سے استفادے کا موقع فراہم کر کے صرف اپنے دستر خوان میں محصور و مقید کیا ہے یہ کمال فن ان دونوں کی تیز رفتار شخصیات کے فہم و ادراک کا عنوان ہے۔ کرنل قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کی معافی اور آزادی انہی دو کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اس کا مطلب ہے سعودی و خلیجی سیاست لیبیا میں استحکام لانے کے لئے اسی قذافی کے بیٹے کو مثبت کردار بنائے گی جس نے قطر کے الشیخ محمد بن خلیفہ اور وزیراعظم حماد بن جاسم کے ساتھ سعودی جغرافیئے کو توڑنے اور السعود اقتدار ختم کر کے نئی مختصر عرب ریاستوں کا تصور دیا تھا۔ ہمارے ہاں کچھ احباب کو سمجھ نہیں آ رہی کہ شاہ عبداللہ آل سعود اور پھر شاہ سلمان آل سعود نے اخوان المسلمین قیادت میں لا تعلقی کیوں اپنائی ہے حالانکہ اخوان المسلمون تو دینی سیاست کا نام ہے۔ امام حسن البناء شاہ عبدالعزیز آل سعود سے ملنے جب آئے تو شاہ سے سعودیہ میں اخوان المسلمین کی شاخ قائم کرنے کی اجازت چاہی جواب میں مدبر و مستقبل بین شاہ بولے ۔ ’’الحمد اللہ ہم سب یہاں مسلمان ہیں اور ہم سب آپس میں اخوان بھی ہیں ۔ لہٰذا آپ خود کو مصر تک ہی محدود رکھیں‘‘۔ گویا شاہ عبدالعزیز نے سیاسی عزائم کے امام حسن البناء کو جواب دے دیا کہ سعودیہ میں ان کے سیاسی عزائم پر مبنی دینی سیاست کا جواز اور امکان سعودیہ کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس پہلو کا فہم حاصل ہونے کے بعد ہم اخوان کے حوالے سے سعودی رویے کو کیسے غلط کہہ سکتے ہیں۔
سعودی اخوان مخالف رویئے کا ایک سبب القاعدہ کا وجود، الشیخ اسامہ سے مصری ڈاکٹر ایمن الظواہری کا قرب اور سعودیہ مخالف کردار بھی ہے۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری نہایت مالدار مصری خاندان کے فرد ہیں جو اقتدار میں شامل رہا اور اس خاندان کاایک فرد مصری وزیر بھی تھا۔ کیا ایمن الظواہری کا اخوانی پس منظر، اقتدار کا سیاسی مزاج بھی سعودی و خلیجی اخوان مخالف رویئے کا سبب نہیں تھے؟ گوادر قطر پائپ لائن منصوبہ اصلاً پاکستانی نہیں چینی و قطری منصوبہ ہے۔ پاکستان سے کہیں زیادہ یہ منصوبہ قطری معیشت کے لئے نعمت خداوندی بن سکتا ہے بشرطیکہ مکمل ہو سکے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024