بے حسی اور سفا کیت کی ترغیب
آج آپ کی توجہ ایک بہت اہم مسئلے کی جانب مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور شدت پسندی کا رجحان بہت تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ اِس بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت ساری وجوہات ہمارے سماجی نظام، معاشی عدم استحکام، انتظامی بد نظمی، اور سیاسی صورتحال وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ مُلک دُشمن قُوتیں بھی اپنا کام پوری تندہی سے کرتے ہوئے ہمیں بے حسی اور سفاکیت کی جانب دھکیلتی جا رہی ہیں۔ ایک منظم تحریک کے ذریعے پاکستانی قوم کو سوشل میڈیا کی مدد سے ، کچھ ایسے مواد سے آشنا کروایا جا رہا ہے جو کہ ہمدردی کے جذبے کو ختم کر کے بے حسی اور سفاّ©کیت کے ذریعے مزہ حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور نا دانستہ طور پر ہم میں سے بہت سارے لوگ اس طرح کے مواد کو اپنے پیاروں کے ساتھ شیئرکرکے دشمنوںکے کام کوآسان بنارہے ہیں۔ بے حسی اور سفاکیت کی ترغیب دینے والے مواد کی تفصیل بتانے سے پہلے میں آپ کو کچھ اہم معلومات فراہم کرنا چاہوں گا۔ کہ یہ اہم معلومات آپ کو میرا مدعا سمجھنے کے لئے یقینا مددگار ہو گی۔ علمِ نفسیات کی رو سے ہم انسان تین خاص قسم کی کیفیات کا تجربہ کرتے ہیں جو کہ لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلق کے بننے اور بگڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پہلی کیفیت کا نام ہے ہمدردی (Sympathy (، جس کے ہونے سے ہم دوسروں کے دُکھ درد کو محسوس کر کے اُن کو تسلی دیتے ہیں، اور کوشش بھی کرتے ہیں کہ دوسرے انسان کو درپیش مسائل کا کوئی حل نکال سکیں۔ یہی کیفیت کسی کو روتا دیکھ کر ہماری آنکھوں میں بھی آنسو لے آتی ہے۔ اسی کیفیت کو طاری کر کے بھکاری ہم سے ہماری جیب میں موجود رقم کا کچھ حصہ با آسانی اپنی جیب میں منتقل کر لیتے ہیں۔ ہماری اِسی کیفیت کو استعمال میں لاتے ہوئے کچھ سیاستدان ہم سے ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی کیفیت ہمیں مفلسوں کو زکوٰة اور خیرات دینے کی جانب رغبت دلاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمدردی کا بہت زیادہ ہونا کبھی کبھی باعثِ نقصان بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمدردی کی کیفیت ہمارے سوچنے سمجھنے اور مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت کو وقتی طور پر محدود کر دیتی ہے، اور جعل ساز لوگ ہمیں دھوکا دے کر ہم سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں ۔دوسری کیفیت کا نام ہے ہم احساس ہونا ( (Empathy اِس کیفیت میں ہم دوسرے انسان کے دُکھ درد کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اور پھر سمجھتے ہوئے اسکی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کیفیت میں کسی کو روتا دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو تو نہیں آتے مگر یہ کیفیت ہمیں کو اِس قابل بناتی ہے کہ ہم دُکھی انسان کی بات کو پوری توجہ سے سُنیں اور جہاں ضروری ہو وہاں گلے لگا کر اُسے کھل کر رونے کے لئے کندھا مہیا کریں اور اِس کے بعد اسکی ممکنہ مدد اپنے مال، علم یا ہنر کے ذریعے کریں۔ ماہرِ نفسیات کی تربیت کے وقت ماہر اسا تذہ خصوصی توجہ دے کر ما ہرِ نفسیات میں ہم احساس (Empathetic) ہونے کی صلاحیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہم احساس ہونے کی صلاحیت کو ابھارے بغیر سائیکوتھراپی یعنی بات چیت سے علاج یا پیشہ ورانہ مشاورت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اِسی ہی کیفیت کو استعمال میں لا کرڈاکٹرز لوگوں کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں اور سرجن انسانوں کے مختلف اعضاءکی سرجری کرتے ہوئے اُنکو تکلیف سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری پاکستانی قوم کے عظیم ہیرو عبدالستار ایدھی نے اس کیفیت میں رہتے ہوئے دنیا کا بہترین خیراتی نظام بنا دیا۔ جس کے کارکن بغیر کسی تفریق کے انسانوں کی خدمت کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ کیفیت انسانوں کی زندگی اور تعلقات میں بہتری کا باعث ہوتی ہے۔ اور شاید یہ واحد کیفیت ہے جس کا زیادہ ہوجانا کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا۔ بلکہ معاشرے کو بہت فائدہ اور استحکام پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ تیسری کیفیت ہے بے حسی Apathy)) ، اِس کیفیت میں انسان کسی دوسرے انسان کی کسی بھی پریشانی، دُکھ، درد، اور تکلیف جیسی صورتحال کو سمجھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے ۔ اُسے فرق نہیں پڑتا کہ اسکے سامنے کوئی زخمی انسان زندگی و موت کی کشمکش میں ہے، کوئی بہت مجبور ہے، یا کوئی شخص بھوک پیاس سے تڑپ رہا ہے، اس کیفیت میں مبتلا شخص صرف اپنے فائدے کو دیکھتا ہے اور اِس کے علاوہ کچھ اور دیکھنا اسکے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
شدت پسند، دہشت گرد، انسانی اعضاءنکال کر فروخت کرنے والے سرجن، جعلی ادویات بنانے اور بیچنے والے تاجر، ملاوٹ کرنے والے، اور دیگر جرائم پیشہ افراد اِس بے حسی کی کیفیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت سماج دشمن ہوتے ہیں۔ اب اصل مقصد پر آتے ہیں۔ ہمدردی، ہم احساس ہونا، اور بے حسی، یہ تین اہم کیفیات ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ یاد رکھیں ! پاکستانی قوم اپنے مزاج کے اعتبار سے بنیادی طور پر ایک ہمدرد قوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم صدقہ و خیرات کرنے اور اپنی دریا دلی کی وجہ سے پوری دنیا میں اول نمبر پر مانی جاتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہماری دشمن قوتیں، یہ کیسے برداشت کریں کہ پاکستان کا نام کسی اچھے اوصاف کے ساتھ اول نمبر پر لیا اور لکھا جائے۔ وہ تو بس چاہتے ہیں کہ ہم تشدد، دہشت گردی، لڑائی جھگڑوں میں پڑے رہیں، اور یہی ہماری وجہ شہرت رہے۔ لہٰذا سازش رچائی جائے اور سیکھنے کے جدید نفسیاتی طریقوں کو استعمال میں لا کر اس ہمدرد قوم کو بے حس بنانے کا عمل شروع کیا جائے۔ ہو کچھ اس طرح رہا ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بُک کے لئے کلاسیکی مشروطیت ((Classical Conditioning کے قانون کو استعمال میں لاتے ہوئے کچھ خاص قسم کی ویڈیو بنائی گئیں ہیں۔ اِن ویڈیوز میں انسانوں اور جانوروں کے ساتھ حقیقت میں پیش آنے والے حادثات کو زور دار قہقہوں یا مثبت جذبات ابھارنے والی موسیقی کے ساتھ ملا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور انسانوں اور جانوروں کو تکلیف میں دکھا کر ہمیں ہنسایا یا مثبت جذبات کو ابھارا جا رہا ہے۔ تا کہ بے حسی اور سفاّکیت کی کیفیت کو ہمارے جذبات اور رویوں میں اُجاگر کیا جائے۔ عام طور پر کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دوسرا انسان بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اور اسکی مدد کے لئے دوڑتا ہے۔ یہ ویڈیو بار بار دیکھنے سے آپ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر ہنسنے یا خوش ہونے کی طرف راغب ہونے لگیں گے۔درحقیقت آپ نے نوجوانوں کو اس طرح کی ویڈیوز دیکھ کر قہقہے لگاتے یا خوش ہوتے دیکھا بھی ہوگا۔ اِن ویڈیوز کے آغاز میں چھوٹی تکلیف یعنی کسی کا پیر پھسلنا اور اُس کا سنبھل جانا دکھایا جاتا ہے ۔ جیسے جیسے آگے دیکھتے جائیں ویسے ویسے بڑی تکلیف کا واقعہ اور مزید زور دار قہقہوں کی آوازیں یا مست کرنے والی موسیقی سنائی دیتی ہے۔ جیسے ایک شخص درخت کی شاخ پر چڑھا ہو ا ہے، اور شاخ ٹوٹ جاتی ہے، وہ دوسری شاخوں سے ٹکراتا ہوا انتہائی کرب ناک حالت میں نیچے گر کر بے سدھ ہو جاتا ہے۔ ایک لڑکا کسی کو گرانے کے لئے اپنی ٹانگ راستے میں پھنساتا ہے، اور اس کی ٹانگ کو ایک بائیک کچل دیتی ہے۔ ساتھ زور دار قہقہہ۔ کوئی سا ئیکل سے گر رہا ہے۔ کوئی کھیلتے ہوئے پھسل جاتا ہے۔ کسی ویڈیو میں بلی کی دُم کے ساتھ چوہا باندھ کر چھوڑ دینا۔ کسی سوتے انسان کے بیڈ کے نیچے پٹاخے پھوڑنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہم سب کو گبر سنگھ بنا رہے ہیں! آپ سب بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ قومی دھارے میں شامل ہو کر اس قسم کی سازشوں کو روکیں۔ جب کبھی کوئی اس طرح کی ویڈیو آپ تک پہنچے، اس کو آگے کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریں۔ وہیں روک دیں۔ آپ خود بھی اسکو پورا نہ دیکھیں۔ اچھی باتیں دیکھیں، اچھی باتیں کریں اور اچھی باتیں ہی پھیلائیں۔ ہم سب کو مل کر ملک پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر لے کر جانا ہے۔اور اس کے لئے اپنے معاشرے میں محبت، برداشت، بھائی چارہ ، اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہو ئے ہر نئی صبح کا آغاز کرنا ہے۔ آئیں عہد کریں! کہ ہم اپنے اور اپنے ملک کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔ اور اپنے لوگوں کو امن اور محبت کے ساتھ بے حس عناصر سے تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہیں گے۔ انشاءاللہ۔