”لیلتہ القدر“
رمضان المبارک کا مہینہ مجموعہ حسنات و برکات ہے جس کا ایک ایک لمحہ سعادت اندوزی کے لئے بیش قیمت اور قابل قدر ہے۔اس کا اول،اوسط اور آخر سب مبارک ومقدس ہے اور انوار وتجلیات سے معمور ہے ۔دن اور راتیں برکتوں اور سعادتوں سے مالا ما ل اور بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔اس کا پہلا عشرہ اللہ کی نعمتوں سے معمور ہے ۔درمیانی عشرہ اللہ کی مغفرت اور بخشش سے بھرپور ہے آخری عشرہ عذاب جہنم سے آزادی عطا کرنے والا ہے ۔
ےہ فردوس میں گھر بنانے کے دن ہیں
ےہ بگڑا مقدر بنانے کے دن ہیں
ذرہ کو اختر بنانے کے دن ہیں
ےہ قطرہ کو گوہر بنانے کے دن ہیں
ےہ دن وہ ہیں دنیا کو ہے ناز جن پر
ہے قربان جنت کا ہر ساز جن پر
شبِ قدر رمضان شریف کی جملہ مقدس راتوں میں سے ایک با برکت رات ہے جو شبِ قدر اور لیلتہ القدر کے نام سے موسوم ہے اور جو غالباََ رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔اس رات کو شام سے لے کر صبح تک تجلی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اس رات میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینے کی عبادت وریاضت سے افضل ہے ۔اس رات کی عبادت سے جو حلاوت اور کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ دوسری راتوں میں حاصل نہیں ہوتی ۔اسی مقدس رات میں فرشتوں کی پیدائش ہوتی ہے اور اسی رات میں حضرت آدمؑ کی پیدائش کا مادہ جمع کیا گےا۔
شبِ قدر میں شب بیداری کا بڑا ثواب ہے ۔اس رات میں جو جاگتا ہے اور عبادت میں مصروف رہتا ہے اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں او ردعا مانگتے ہیں اور آ مین کہتے ہیں پھر کیوں نہ اس رات میں ہر دعا مقبول ہو گی ۔تو کیوں اس مبارک رات کو غفلت کی نیند میں کھو دیا جائے ۔
بزرگانِ دین نے فرشتوں کے مصافحے کی ےہ علا مت لکھی ہے کہ جس وقت فرشتے مصافحہ کرتے ہیں تو ےکاےک دل میں ایک رقت پیدا ہو جاتی ہے اور قلب پھڑکنے لگتا ہے۔بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور عابد وہ کیفیت و لذت حاصل کرتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔لہٰذا جو شخص شبِ قدر میں عبادت کرنے سے محروم رہا وہ گوےا ہر نیکی سے محروم رہا اور نیکی سے محروم رہنے والا بدنصیب ہوتا ہے ۔
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس رات کو ”لیلتہ القدر“ کہنے کی وجہ ےہ ہے کہ سال آئندہ کے لئے بارش ،موت،زندگی اور رزق وغیرہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ اسی رات میں میں مقدر فرماتا ہے ۔نیز لفظ قدر عظمت و بزرگی کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہے ۔چونکہ لیلتہ القدر اپنے اندر بے شمار برکات اور شرف و بزرگی رکھتی ہے ۔اس لئے اس کو شبِ قدر کہا جاتا ہے ۔
دوسری خصوصیت ےہ ہے کہ شبِ قدر میں بنی نوع انسان کی ہدایت ورہبری کے لئے وہ مقدس کتاب نازل ہوئی جو دین ودنیا کی کامیابی کی ضامن ہے ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ©” انا انزلناہ فی لیلة القدر“ (ےعنی ہم نے شبِ قدر میں قرآن شریف کو نازل کیا )۔سبحان اللہ ےہ شبِ قدر کی کتنی بڑی فضیلت ہے اور اس رات کو کتنے اعزازواحترام کا مستحق بناتی ہے ۔تیسری خصوصیت ےہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے ” تنزل الملائکة والروح فیھا باذن ربھم “ ےعنی اس میں فرشتے اور جبریل علیہ السلام اﷲ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ۔حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں جب لیلتہ القدر ہوتی ہے تو رب العزت حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ وہ زمین پر جائیں اور فرشتوں کو لیکر ہمارے بندوں کی زیارت کریں ۔سو سدرة المنتہیٰ کے ستر ہزار فرشتے نورانی علم لئے ہوئے زمین پر اترتے ہیں ۔ےہ علم وہ چار متبرک مقامات پر جھنڈے نصب کر دئیے جاتے ہیں ۔وہ مقامات ےہ ہیں مکہ المعظمہ ،مدینہ المنورہ،مسجد المقدس اور مسجد طور سینا ۔پھر جبریل امین فرشتوں کو زمین پر منتشر ہو جانے کا حکم دیتے ہیں ۔امتِ محمدی کا کوئی گھر ایسا نہیں جس میں ےہ داخل نہ ہوتے ہوں ۔سوائے ان پانچ گھروں کے جن میں ۱۔کتا ہو ۲۔دوسرا جس گھر میں سور ہو ،تیسرا جس میں شراب موجود ہو ،چوتھا جس گھر میں تصویریں ہوں ۔ےہ فرشتے مومنوں کے گھروں میں جا کر تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اور امت محمدیہ کے لئے دعا واستغفار میں مشغول رہتے ہیں ۔جب صبح ہوتی ہے توتمام فرشتے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں ۔آسمان کے دوسرے فرشتے ان کا شاندار استقبال کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ آج کی رات تم کہاں رہے وہ جواب دیتے ہیں کہ آج کی رات ہم نے امت محمدیہ کے ساتھ بسر کی کیونکہ آج شبِ قدر تھی۔پھر آسمان کے فرشتوں سے دنیا کے فرشتے سوال کرتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس رات میں عبادت کرنے والوںکی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کر دیا؟وہ جواب میں کہتے ہیں کہ خدائے قدوس نے نیک لوگوں کی مغفرت کی اور برے لوگوں کے حق میں نیکوں کی سفارش قبول فرمائی ۔ےہ سوال و جواب ہونے کے بعد فرشتے رب العزت کی حمد و ثنا ءاور تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں اور بآواز بلند کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو مغفرت اور رضوان عطا فرمایا ۔
شبِ قدر کو ”سلام“ کے ساتھ بھی وصف کیا گےا ہے۔ےعنی فرشتے بندوں پر خدا کا سلام پہنچاتے ہیں ۔جیسے آتشِ نمرود سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ پاک نے محفوظ رکھا تھا اور آتش کو گلزار بنا دیا تھا اسی طرح امتِ محمدیہ پر اور اس رات میں عبادت کرنے والوں پر بھی آتشِ دوزخ حرام ہو گی اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسالت مآب ﷺ سے عرض کیا کہ” حضور مجھے وہ دعا تعلیم فرمایئے جو میں شبِ قدر میں پڑھوں“۔آپﷺ نے فرمایا کہ ”اے عائشہ! ےہ دعا پڑھا کرو اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی “ ” اے اللہ تیرا نام عفو اور کریم ہے تو معافی اور بخشش کو دوست رکھتا ہے سو اپنے کرم سے مجھے بخش دے “۔