مشیر خارجہ کا او آئی سی سے کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی تحریک کا ساتھ دینے کا تقاضا…کیا یہ تقاضا حکومت کو خود بھی نہیں نبھانا چاہیے؟
مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے اور مسلم ممالک کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی تحریک کی حمایت کریں۔ گزشتہ روز جدہ میں او آئی سی وزراء خارجہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں سات لاکھ فوج کے ذریعے قبضہ کر رکھا ہے‘ کشمیریوں کو دبانے کیلئے بھارتی فوج کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں جو کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حراستی ہلاکتیں‘ جعلی مقابلے اور نوجوانوں کی گمشدگی معمول کی بات بن چکی ہے۔ 1989ء میں تحریک آزادی کے آغاز سے اب تک دس ہزار نوجوان لاپتہ ہو چکے ہیں جبکہ کشمیری قیادت کو آزادانہ نقل و حرکت کی بھی اجازت نہیں اور متعدد کشمیری رہنما گھروں میں نظربند ہیں۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو اس امر سے آگاہ کیا کہ بھارت کشمیری رہنمائوں کو پاسپورٹ جاری نہیں کر رہا‘ اس طرح انہیں عالمی فورمز پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں تشدد‘ خونریزی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انکے بقول مسلم امہ کو درپیش مسائل کا واحد حل اتحاد و یگانگت ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے مظالم اب دنیا کی آنکھوں سے مخفی نہیں رہے جن کا انسانی حقوق کے ہر عالمی فورم اور اقوام عالم کی تنظیم اقوام متحدہ کی جانب سے بھی سخت نوٹس لیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تو دو سال قبل اپنا ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھجوا کر مقبوضہ کشمیر کا سروے کرایا چنانچہ اس وفد نے ہی اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی اور گمنام قبروں کی نشاندہی کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اجتماعی اور گمنام قبریں بھارتی فوجوں کے مظالم اور تشدد سے جاں بحق ہونیوالے کشمیری باشندوں کی ہیں جن میں بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے یورپی ممالک کے ساتھ بھارت کی تجارت معطل کرکے اسے باور کرایا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں فوجوں کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرے۔ یہی ایشو بعدازاں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں اٹھایا گیا جبکہ یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون نے خود بھی اپنے بیان میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ روکنے کی تلقین کی‘ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ میں بھی دو مختلف مواقع پر منظور کی گئی قرارداد وںمیں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر بھارتی فوجوں کے مظالم کی مذمت کی گئی جبکہ کشمیری لیڈران عالمی فورموں پر جا کر بھی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے حوالے سے بھارتی بھیانک چہرے کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں اور کشمیر کی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے گزشتہ سال جو چشم کشا رپورٹ جاری کی گی‘ اسے پڑھ کر تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جس میں بتایا گیا کہ کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو دبانے کیلئے بھارتی افواج اب تک پانچ لاکھ کشمیری باشندوں کو شہید کر چکی ہے اور ان پر مظالم کا ایسا کوئی ہتھکنڈہ نہیں جو بھارتی افواج نے استعمال نہ کیا ہو۔ اسی بنیاد پر خود بھارت کے اندر سے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں جن میں ارون دھتی رائے جیسی بے باک بھارتی دانشور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہوئے دنیا کو بھارتی فوجوں کے مظالم کی صورت میں اصل بھارتی چہرہ دکھاتی رہتی ہیں حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بھی بھارتی فوجوں کے مظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند کر چکے ہیں اور موجودہ مودی حکومت کی جانب سے بھارتی آئین میں کشمیری عوام کو دیئے گئے خصوصی حقوق کے خاتمہ کی تحریک کی بھی مزاحمت کر چکے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت سے ہی بھارت کی جانب سے پیدا کیا گیا کشمیر کا تنازعہ درحقیقت بھارتی لیڈران کی پاکستان کی بقاء اور سالمیت کیخلاف سازش تھی کیونکہ وہ بانیٔ پاکستان قائداعظم کی اعلان کردہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر اپنا خونیں پنجہ جما کر اسے کمزور و بے جان بنانا چاہتا ہے تاکہ بھوکے پیاسے مرتے نیم مردہ پاکستان پر شب خون مارنے میں اسے آسانی ہو سکے۔ اس نے اسی سازش کے تحت 1971ء کی جنگ میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان کو دولخت کیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کو ختم کرنے کی نیت سے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور امریکہ‘ روس‘ فرانس سمیت مختلف ممالک سے دفاعی معاہدے کرکے خود کو ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کرلیا۔ پاکستان دشمنی کا پس منظر اور ایجنڈہ رکھنے والی بی جے پی کی مودی حکومت کے عزائم تو اس بارے میں ڈھکے چھپے نہیں ہیں جس کا مظاہرہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو مدعو کرکے ان پر سفارتی ادب و آداب کے تقاضوں کی قطعی منافی الزامات کی بوچھاڑ کرکے کیا جا چکا ہے جبکہ مودی سرکار کے وزیر دفاع اور آرمی چیف حال ہی میں بھارتی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے کیلئے امریکہ اور روس سے مزید دفاعی معاہدے کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ یہ بھارتی عزائم درحقیقت ہماری سالمیت کو پارہ پارہ کرنیوالے ہی ہیں جو وادیٔ کشمیر کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت کا حصہ بنانے کی سازش پر مبنی ہیں۔
اس صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کو تو ملک کی سلامتی و دفاع اور ملکی معیشت کے استحکام کیلئے کشمیر کی آزادی کی زیادہ فکر ہونی چاہیے اور کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی مؤقف میں کسی قسم کی لچک پیدا ہونے دینی چاہیے‘ نہ اس ایشو کو مردہ بنانے کی بھارتی سازشوں کو کامیاب ہونے دینا چاہیے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ عالمی فورموں پر کشمیر ایشو کے ہائی لائٹ ہونے کے باوجود ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد میں کبھی پرجوش سرگرمی نہیں دکھائی۔ بھارت تو کشمیر پر نہ صرف اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر سختی سے قائم ہے بلکہ اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ بھی دے چکا ہے۔ اسکے برعکس ہماری حکومتی‘ سیاسی قیادتیں اب بھی یہ دلیلیں دیتی نظر آتی ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہم نے تین جنگیں لڑ کر دیکھ لیں مگر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف تو بطور اپوزیشن لیڈر کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو انہوں نے اولین ترجیح بنالیا جس کیلئے انہوں نے بھارتی تاجروں کو ویزے میں نرمی اور دوسری مراعات دے کر عملی اقدامات بھی اٹھائے اور پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا قائد ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی خوش دلی اور جوش و جذبے کے ساتھ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کا اظہار نہیں کیا جبکہ انکی اختیار کی گئی پالیسیوں سے مسئلہ کشمیر کو یکسر نظرانداز کرنے کا عندیہ ملتا ہے۔ اگر مدعی ہی اپنے کیس کیلئے متحرک نہیں ہوگا تو ہم دوسروں سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے کیس کی وکالت کرینگے۔ دنیا میں اگر کشمیری عوام کیلئے اور بھارتی مقاصد کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں تو یہ کشمیری عوام کی قربانیوں سے لبریز اور صبرآزما طویل جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے مگر ہمارے حکمران بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت سے متعلق اپنی پالیسیوں پر گامزن رہ کر کشمیری عوام کا سفر بھی کھوٹا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
ہمارے لئے یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلامی ممالک اور انکی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی جانب سے بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ساتھ دینے کے معاملہ میں ہمیشہ نیم دلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور اس کا سبب بھی یہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کی آواز کو مؤثر بنانے کیلئے کبھی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا گیا‘ ورنہ تو او آئی سی کے رکن ممالک جو اقوام متحدہ کے بھی رکن ہیں‘ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے متحد اور متفق ہو کر اقوام متحدہ میں ایک نئی قرارداد لا سکتے ہیں۔ اب مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے او آئی سی وزراء خارجہ کانفرنس میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے بھرپور آواز اٹھائی ہے اور او آئی سی کے رکن ممالک نے کشمیری عوام کا ساتھ دینے کا تقاضا کیا ہے جو یقیناً مثبت اور خوش آئند اقدام ہے تاہم اس سوچ کی بنیاد پر پاکستان کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر مدعی خود ہی سست ہو گا تو کشمیر کے کیس میں ہم اپنا مؤقف کیسے تسلیم کرا پائیں گے۔ اسکے برعکس بھارت آج بھی دنیا کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ اسکی پاکستان کیساتھ تجارت کے فروغ کیلئے بات چیت جاری ہے‘ بھارت کیساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینا درحقیقت بھارت کو کشمیر کا قضیہ پاک کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے اس لئے مشیر خارجہ کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے اسلامی ممالک سے ساتھ دینے کا تقاضا خود اپنی حکومت سے بھی کرنا چاہیے۔