منگل‘ 9؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 20 ؍جولائی 2021ء
سی پیک کی بدولت 5 ہزار ایکڑ پر مرچوں کی کاشت ہو گی: عاصم سلیم باجوہ
اب اس خبر سے ہمارے پڑوسی کو جو مرچیں لگیں گی اسکی وجہ سے دیر تک اس کے سی سی کی آوازیں پوری دنیا سے سنائی دیں گی۔ دیکھ لیں یہ ہوتی ہے کامیاب حکمتِ عملی مرچیں ہم اگارہے ہیں اور جلن بھارت کو ہوگی۔ سی پیک ویسے بھی آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں۔ بھارت تو سی پیک کی کامیابی کا سفر دیکھ دیکھ کر جل بھن کر کباب ہو رہا ہے ، کیونکہ اس سے پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور کامیابی برداشت نہیں ہو رہی۔
اس نے پوری کوشش کی کہ سی پیک کا کام ٹھپ ہو جائے۔ کبھی دہشت گردی کو فروغ دیا کبھی دنیا بھر میں اس کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا۔ کبھی کشمیر کے متنازعہ علاقے کا شور مچایا۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود دیکھ لیں سی پیک ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر دشمنوں کی نیندیں اُڑا رہا ہے۔
اب سی پیک کے کرتا دھرتاعاصم سلیم باجوہ نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ سی پیک کی بدولت 5 ہزار ایکڑ پر سرخ مرچوں کی کاشت کریں گے۔ یہ سی پیک کے روٹ کے اردگرد بننے والی صنعتی و تجارتی زونوں کے علاوہ کی سوغات ہو گی۔
اسی طرح اگر اس روٹ کی زرخیز زمینوں پر جدید طریقہ کے مطابق کاشتکاری اور فروٹ فارمنگ کے علاوہ مویشی پالنے والے فارمز بنائے جائیں تو سی پیک صنعتی و تجارتی کے علاوہ زرعی انقلاب کی نوید بھی بن جائے گا جو ملک میں خوشحالی لا کر دشمنوں کے دل و جگر کو کباب کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭
یوکرائن میں بکریوں کا مقابلہ حسن اور کیٹ واک
حیرت کی بات ہے عید الاضحی پر ہمارے ہاں یعنی برصغیر میں جانوروں کو سجایا سنوارا جاتا ہے۔ خوشبو اور مہندی ہی نہیں انہیں سرما تک لگایا جاتا ہے۔ ماتھا پٹی کے علاوہ جانجھریاں پہناتے ہیں۔ خوبصورت دوپٹے ڈالے جاتے ہیں۔ بہرحال اب تو ہمارے ہاں بھی بکروں کو نہلانے دھلانے ان کے کُھر برابر کرنے کے لیے بھی بکروں ، بیلوں ، دنبوں کے سجاوٹ کے ایکسپرٹ بیوٹیشن بھی میدان میں آ گئے ہیں جو ایک ہزار سے 5 ہزار تک فیس لیتے ہیں اور گھر آ کر آپ کے دنبے ، بکرے ، بھیڑ یا گائے کو نہلا دھلا کر سجا سنوار کر ایسا تیار کرتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو محلے میں بھی مقابلہ حسن منعقد کر کے شہرت بھی کما سکتے ہیں اور ٹرافی بھی جیت سکتے ہیں۔ مگر ابھی اس کام میں کچھ وقت لگے گا۔ پھر ہو سکتا ہے ہمارے ہاں بھی یوکرائن کی طرح عید سے قبل قربانی کے جانوروں کے مقابلہ حسن منعقد ہونے لگیں اور اس کے ساتھ ہی کیٹ واک کا انعقاد بھی خوش اسلوبی سے ہونے لگے یوں ایک نیا جوش و جذبہ اور روایت ہمارے معاشرے میں پنپنے لگے گی ۔ ویسے بھی تو ہمارے ہاں یعنی برصغیر میں عید سے قبل جانوروں کو نہلا دھلا کر سجا ، سنوار کر رنگ برنگے ڈوپٹے اور آرائشی چیزوں سے مزین کر کے بچے اور بڑے بازاروں کی سیر کراتے ہیں۔ جس کا جانور جتنا صحت مند اور خوبصورت سجا ہوتا ہے اس کی ہر جگہ واہ واہ ہوتی ہے۔ آئندہ یہی کچھ ذرا حسن و سلیقے سے مقابلہ حسن و صحت اور کیٹ واک کی شکل میں ہواکرے گا۔
٭٭٭٭٭
بہاولپور میں چور سابق اولمپئن سمیع اللہ کے مجسمہ سے ہاکی اور گیند چرا لے گئے
یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ کیا ہمارے چور اب شرم و حیا سے بھی عاری ہو گئے ہیں۔ بہاولپور میں قومی ہیرو کے مجسمے کے ہاتھ سے ہاکی اور زمین پر پڑی گیند چرانے والے یا تو بڑے بے شرم ہیںیا پھر ہاکی کے بہت زیادہ شیدائی۔ وہ شاید یہ ہاکی اور گیند اپنے ڈرائینگ روم میں سجا کر دوسروں پر رعب جھاڑنا چاہتے ہونگے مگر اب تو پول کھل گیا ہے۔ ہاکی اور گیند کی چوری کی خبر پورے ملک میں نشر ہو گئی ہے۔ اب وہ کیا کریں گے۔ شاید اب وہ یہ دونوں چیزیں چور بیچنے سے بھی رہ گئے ہیں کیونکہ پکڑے جانے کا خطرہ ہر وقت لگا رہے گا۔
قومی ہاکی فیڈریشن والوں نے بھی اس چوری کے واقعہ کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اب نئی ہاکی اور گیند سمیع اللہ کے مجسمے کے ساتھ لگائیں گے۔ فی الحال بہاولپور کے چوک میں بنا ہاکی اور گیند سے ان کا مجسمہ خالی خالی لگ رہا ہے مگر اس چوری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ جن لوگوں کو ہاکی سے کوئی شغف نہیں تھا، وہ بھی آکر اس مجسمہ کو دیکھ رہے ہیں جس کا سامان چوری ہو گیا ہے۔ اس چوری کی واردات پر تو بہاولپور کے کھلاڑیوں اور کھیلوں کی تنظیموں کو سخت احتجاج کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لینا چاہئے تھا تاکہ چوروں کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
٭٭٭٭٭
روس کی امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کرنے کی پیشکش
رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ عرصہ دراز تک اپنے زخم چاٹنے کے بعد بھی اگر روس کی خواہش ہے کہ وہ افغانوں سے اپنی شکست اور ٹوٹنے کا بدلہ اس طرح لے تو یہ ایک غلط سوچ ہے ۔ اس طرح سوائے تباہی و بربادی کے کھیل میں مزید طوالت کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ روس اپنے سابقہ تجربات سے سبق سیکھے اور افغان جنگ میں الجھنے سے گریز کرے۔
امریکہ جب خود افغانستان سے جان چھڑا کر بھاگ رہا ہے تو اس کی بھاگنے میں مدد کی جائے ناکہ اس کو مزید حماقتوں پر آمادہ کیا جائے کہ وہ مستقبل میں افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی کے لیے روس کے فضائی اڈے استعمال کر سکتا ہے۔ اس وقت بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ صاحب بہادر امریکی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے فضائی اڈے امریکہ کے لیے کھول دے اور وہ وہاں سے بیٹھ کر افغانستان میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنائے مگر روس اب اس کے مقابل آکر اس کی دال نہیں گلنے دے رہا۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ امریکہ کے بعد افغانستان میں قیام امن کی کوششیں تیز کی جائیں۔ نہ کہ وہاں بربادی پھیلانے کے لیے اپنے اڈا استعمال کرنے کی اجازت دے کر حالات کو مزید خراب کیا جائے۔ ویسے روس اور امریکہ آج تک ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے کے یہ دشمن افغانستان کے مسئلے پر یکدم ایک دوسرے کے حلیف کیسے بن گئے۔ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘
٭٭٭٭٭