اس وقت پوری دنیا ہی معاشی دبائو کا شکار ہے امریکہ ،یورپ ،جاپان اور مڈل ایسٹ کے حالات روزانہ کی بنیاد پر بگڑ رہے ہیں معیشت سکڑ رہی ہے اور امیر و غریب ممالک نوٹ شاپ کر مصنوعی طور پر اپنی معیشت میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ٹر مپ نے چین کے ساتھ ایک بڑی تجارتی جنگ لڑی ہے لیکن اب امریکہ کے اقتصادی مسلز کام کرنا چھوڑ رہے ہیں امریکہ نہ چاہتے ہوئے بھی چین کے ساتھ تجارتی محاز پر سیز فائر کرتا نظر آ رہاہے حالیہ دنوں میں چین انڈیا ٹروپس کی ہلاکتوں کے بعد ٹرمپ نے اپنے دوست مودی کو زبانی جمع خرچ والی مدد بھی فراہم نہیں کی یہی وجہ ہے کہ اپنی بہار رجمنٹ کے درجنوں فوجی مروانے کے باوجود مودی اپنی قوم کے سامنے آیا تو اس کا گلا خشک تھا اور چہرے کے تاثرات الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے تھے یاد رہے کہ چین کے فوجیوں کے ہاتھوں انڈین آرمی کے15فوجی مرے تھے جبکہ اس سے پہلے جون کے پہلے ہفتہ میں انڈیا کی حکومت نے ایک چینی کمپنی کو میرٹھ سے دلی تک ٹرین لائین بچھانے کا ٹھیکہ دیا اور انہی دنوں بنک آف چائنا کو ممبئی میں اپنی برانچ کھولنے کی اجازت دی انٹرنیشنل بزنس مارکیٹ میں خبر ہے کہ چین انڈیا دو طرفہ تجارت متاثر ہو سکتی ہے لیکن انڈین حکومت کی جانب سے خاموشی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح اس وقت پاک انڈیا تجارت معطل ہے اگر ایسا ہی چین اور انڈیا کے درمیان ہوا تو انڈیا اقتصادی لحاظ سے کم ازکم 40سال پیچھے چلا جائے گا اس وقت انڈیا کی معاشی حالت یہ ہے کہ خود انڈیا کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ انڈیں معیشت یعنی جی ڈی پی 11فیصد منفی ہو چکی ہے اس وقت تین ہزار سے زائدانڈین کمپنیاںچین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں انڈیا کی زرعی پروڈکٹس کا 75فیصد اکیلا چین خرید رہاہے ویسے اگر ایسا ہو گیا کہ چین انڈیا سے تجارت بند کر دے تو مودی سرکار کاتیا پانچہ ہو جائے گا یہ جو امریکہ تجارتی محاذپر چین کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا ہے اس کی وجہ چین کی جناتی معاشی طاقت کے ساتھ چین کی پوری دنیا میں پھیلی سرمایہ کاری ہے امریکہ بذات خود ایک اقتصادی جن ہے لیکن چین کی طرح اس کی سرمایہ کاری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی نہیں ہے دنیا میں 207ممالک ہیں تو چینی سرمایہ کاری بھی 207ممالک میں موجود ہیں کرونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا کے ممالک میں مقامی سرمایہ کار پیسہ نہیں لگا رہے ان حالات میں بھی چینی کمپنیوں کی جانب سے پوری دنیا میں سرمایہ کاری جاری ہے گذشتہ تین ماہ سے کوڈ 19متاثرہ دنیامیں چینی کمپنیوں نے 600ارب ڈالرز کے منصوبے شروع کئے ہیں پاکستان میں بھی معاشی سرگرمیاں محدود ہیں اورGDPتک منفی ہے اس کے باوجود سی پیک کی تمام سائیڈز پر کام جاری ہے بلکہ اس میں تیزی آئی ہوئی ہے یورپ اور امریکہ کے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کرونا وبا کا مکمل فائدہ اٹھا رہاہے دنیا کی سکڑتی معیشتوں میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کیلئے نئی سرمایہ کاری کر رہاہے دنیا کے معاشی معاملات ایک ملک چین کے ہاتھوں میں جانا خطرناک ہو سکتاہے اب سوال یہ ہے کہ پوری دنیا اقتصادی لحاظ سے الٹ پلٹ گئی ہے اس میں پاکستان کس طرح فائدہ اٹھا سکتاہے اور کیا ملک کی لیڈر شپ میں اتنی صلاحیت ہے کہ کرونا وبا کے ان دنوں میں کچھ الگ سے کر سکے جس سے پاکستا ن کو معاشی جمپ ملے اس وقت دنیامیں فیس ماسک ،جراثیم سے تحفظ دینے والے لباس کی شدید ضرورت ہے جبکہ جبکہ پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر اس پر کام جاری رکھے ہوئے ہے اگر حکومت کوڈ19کیلئے تیار ہونے والی مصنوعات پر سے کچھ عرصہ کیلئے سیلز ٹیکس ختم کر دے تو پاکستان کے ایکسپورٹرز مالی سال 2020-21میں کوڈ 19کی اشیاء 7سے10ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کر سکتے ہیں جس سے ملک کی GDPپر بھی فرق پڑے گا اور سب کا فائدہ ہو گا۔
اب ایک نظر کاٹن مارکیٹ پر جہاں نئے سیزن کا آغاز ہو گیاہے سندھ کے تمام علاقوں میں چنائی شروع ہے سندھ میں 60سے زائد جبکہ پنجاب میں 15سے زائد کاٹن فیکٹریوں نے کام شروع کر دیا ہے پھٹی کی قیمت میں 100روپے اور کپاس میں 200فی من کا اضافہ ہو گیاہے اس وقت کاٹن کے دام سندھ میں 8300سے8450جبکہ پنجاب میں 8550سے 8700روپے فی ماونڈ ہے
بہترین کوالٹی کی وجہ سے ایکسپورٹ بیس ٹیکسٹائل ملیں نئی کاٹن کی خریداری میں بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہیں کاٹن سیزن کے آغاز میں جو روایتی جوش و خروش نظر آتاہے ایسا نہیں ہے لیکن نئی کاٹن کی ڈیمانڈ نے مارکیٹ پر طاری مایوسی اور اضطراب کو ختم کر دیاہے مارکیٹ میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ چین انڈیا تجارت معطل ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور چین کا ٹیکسٹائل سیکٹر دھاگہ اور کاٹن لینے کیلئے پاکستان کا رخ کر ے گا اس صورتحال کو دیکھ کر پاکستان کے ایکسپورٹرز نے کاٹن خرید کر سٹاک کرنا شروع کر دی ہے کاٹن مارکیٹ میں جہاں نئی کاٹن کی ڈیمانڈ ہے وہاں اولڈ سٹاک کی بھی فروخت شروع ہے جس سے گذشتہ سا ل کی روئی سٹاک کرنے والے جنرز خوش دکھائی دیتے ہیں تاہم کوڈ 19کی وجہ سے جینگ سیکٹر کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اس پر حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ملا جینگ سیکٹر کو اس وقت موجودہ صورتحال کو سامنا ہے کاٹن پر ٹیکسوں کی بھر مار خاص طور پر ودہولڈنگ ٹیکس جو جنرز نقصان کرنے کی صورت میں بھی ادا کرتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں اولڈ سٹاک جو 9000کی بجائے جنرز 7500سے8000میں فروخت کر رہے ہیں اس میں نقصان ہے لیکن ود ہولڈنگ ٹیکس پھر بھی ادا کر رہے ہیں اور سب سے اہم اور بڑا مسّلہ مارک اپ میں ریلیف کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرونا ریلیف پیکج سٹیٹ بنک کے بیس ریٹ میں فوری کٹوٹی کے اعلان کے باوجود بنک اس کا اطلاق یکم اپریل اور یکم جولائی سے کرنے پر مصر جبکہ ڈپازٹ ریٹ پر فوری طور پر کمی کر دی ہے ایک اور مسّلہ ٹیکسٹائل ملز کی طرف سے جنر زکو کاٹن کی ادائیگی میں مسلسل تاخیر جس سے لگتا ہے کہ جب جنرز کو پیسے ملیں گے تو اتنے ہی پیسوں کا بنک کو سود دینا پڑ جائے گا کاٹن جنرزکے مسائل حل نہ ہوئے تو اس کا اثر کا شتکار پر بھی ہو گا اور پھٹی کے دام عدم استحکام کا شکار ہو جائے گے جبکہ 1200میں سے 600کاٹن فیکٹریاں ممکن ہے سیزن 2020-21میں چل ہی نہ سکیں حکومت جینگ سیکٹر پر توجہ دے تاکہ کپاس کے کاشتکار کو اس کی فصل کا معاوضہ درست اور وقت پر مل سکے جس سے اس کو فائدہ بھی ہو گا ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024