سرد جنگ میں روس کی شکست کے بعد سے اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر تمام دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں تیز کر چکا ہے۔اس گٹھ جوڑ کے دو بڑے مقاصد ہیں۔اول دنیا میں اپنی پسند کا معاشی نظام قائم کر کے تمام دنیا کی معیشت کو اپنے قبضے میں کرنا اور دوسرا اسلام دشمنی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ معاشی میدان میں اس وقت امریکہ اور اسرائیل کو اپنا سب سے پہلا دشمن چین نظر آ رہا ہے۔ امریکہ معاشی میدان میں چین کو کسی بھی طرح مات دینے کی کوششوں میں ہے اور ساتھ ہی فوجی میدان میں بھارت کو اپنا ’’ لڑاکا مرغا‘‘ بنا کر چین سے لڑوانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اورنظریاتی طور پر واحد طاقت جس سے انہیں اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ اسلام ہے۔ امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرنے کا اعلان ہو یا مسٹر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم کی موجودگی میں فلسطین کے لیے خود ساختہ ’’ دو ریاستی امن منصوبہ‘‘ ، یا پھر میں’’مسٹر پومیو‘‘ کی جانب سے اس بات کا برملا اعلان کہ امریکہ نے اپنا چالیس سال پرانا موقف کہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہئیے تبدیل کر لیا ہے، ان تمام باتوں اور سیاسی اور فوجی اقدامات کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو آپس میں لڑا کر کمزور کیا جائے ۔اس تمام صورتحال میں سب سے فکر انگیز بات یہ ہے مسلم دنیا کے بڑے حصے کو امریکہ اور اسرائیل اپنے زیر اثر کر چکے ہیں۔
ایک جانب اللہ کے دین برحق کے دشمن اتنے منظم ہیں اور دوسرے جانب ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے ان اقدامات کے خلاف کوئی قدم اٹھانا یا متحد ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہماری اکثریت ابھی تک اپنے اصل دشمن اور اسکے نظریات کو پہچانتی تک نہیں ہے۔ تمام اسلام دشمن قوتوں کی ڈوریاں دراصل صیہونیوں یعنی Zionists کے ہاتھ میں ہیں۔یہاں تک کہ اصل یہودی اور امریکہ کے کرسچین بھی دراصل ان صیہونیوں کے آلہ کار ( ایک طرح سے غلام) بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ’’یہودیت‘‘( Judaism) اور ’’ صیہونیت ‘‘ ( Zionism) کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ یہودیت ایک مذہب اور صیہونیت ایک اتنہا پسند سیاسی ایجنڈہ ہے۔ مختصر اور آسان الفاظ میں بنی اسرائیل کے وہ افراد جو یہودیت پر یقین رکھتے ہیں اور تورات کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں وہ یہودی ہیں۔ انکا اعتقاد ہے کہ ان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ خدا کی جانب سے امتحان ہے اور یہ کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ریاستی یا سیاسی ایجنڈا اختیار کرنا تورات کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے وہ یروشلم پر قبضہ یا اسرائیل کے زبردستی قیام کے بھی مخالف ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تورات کی تعلیمات کے مطابق انکے ’’مسیحا ‘‘ کے آنے اور MESSIANIC ERA کے آغازس قبل یہویوں کے لیے اپنی الگ ریاست ( اسرائیل) کا قیام انکی اصل مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے خود یہودیوں میں Zionism کے خلاف بھی کچھ تحاریک چل رہی ہیں( جیسے کہ "Neturei Karta")۔ اس کے برعکس صیہونیت یعنی Zionism ایک انتہا پسند نظریہ ہے جس کا دراصل کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لفظ Zionism پہلی مرتبہ 1890 میں Nathan Birnbaum نام کے یہودی نے ایجاد کیا۔ اسکے بعد 1896 میں ’’Theodor Herzl‘‘ نامی ایک شخص ، جو نسل سے تویہودی تھا لیکن سیکولر یعنی لا دین تھا، نے پہلے یورپ کے یہودیوں پر مظالم اور پھر ’’ مبینہ ہالوکاسٹ‘‘ کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ ہالوکاسٹ ایک حقیقت ہے یا افسانہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس بارے میں تحقیق کرنے کی بات کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ بات کرنے والا ہالوکاسٹ سے انکار کر رہا ہے اور ان ممالک میں ایسا کرنے کی سخت سزا کے قوانین موجود ہیں ۔( یہاں آ کر ان ممالک کا ’’ آزادیٔ رائے‘‘ کا فلسفہ فوت ہو جاتا ہے)۔ بہر کیف اس شخص نے یہودیوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے انکی عبرانی کتب میں موجود نظریے '' The Return to Zion" کو بنیاد بنا کر باقاعدہ Zionist (صیہونیت) تحریک کا آغاز کر دیا ۔ صیہونیت کی بنیاد یہودی مذہب کی بجائے اس بات پر ہے کہ تمام دنیا نے ان پر بے شمار ظلم کیے ہیں اور اب انکا حق ہے کہ وہ تمام دنیا سے اپنے اوپر کیے جانے والے ’’ مبینہ مظالم‘‘ کا بدلہ لیں ۔اسی لیے یہ صیہونی کسی بھی علاقے پر زبردستی قبضہ اور قتل و غارت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس انتہا پسند ریاستی ایجنڈے کے بہت سے اتحادی ہیں جن میں کرسچن ( عیسائی ) بھی شامل ہیں۔ انہیں ( christian zionist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو عیسائی ہیں لیکن اسرائیل (صیہونیت) کی حمایت میں یہ لوگ یہودیوں سے بھی آگے ہیں۔
عالمی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اگر اب بھی اسلامی دنیا نے اپنے حقیقی دشمن اور اسکے اصل عزائم اور ارادوں کو مکمل طور پر پہچان کر اسکے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو شاید بہت دیر ہو جائے۔ ساتھ ہی ضروری ہے کہ مسلم ممالک تمام دنیا اور خاص طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ حقیقت سمجھائیں کہ وہ دراصل ’’ صیہونی طاقتوں‘‘ کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور یہ کہ صیہونی طاقتوں کا ایجنڈہ خود یہودی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی ہمیں خود بھی یہ سمجھنا چاہئیے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہیں ہیں بلکہ انکا اصل دشمن انکو آپس میں لڑوا کر کمزور کر رہا ہے تاکہ وقت آنے پر وہ ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک یعنی تمام اسلامی دنیا پر مسلط ہو جائے۔ جب تک ہم اپنے اصل دشمن کو پوری طرح پہچانیں گے نہیں ہم اس شاطر دشمن کی چالوں کا خاطر خواہ جواب نہیں دے سکتے۔کیونکہ یہ دشمن اپنا روپ بدل کر مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں کے ساتھ مسلم دنیا کے ہر ملک میں گھسا ہوا ہے۔اگر اب بھی پاکستان سمیت تمام اسلامی دنیا کو سامنے دیوارپر لکھی یہ حقیقت نظر نہیں آتی تو بس پھر ہم سب کا خدا ہی حافظ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024