کوئی نہیں جانتا اپوزیشن کی سیاست کہاں کھڑی ہے؟ موجودہ بندوبست ایسے ہی چلے گا، آئندہ سال مارچ میں سینٹ الیکشن سے پہلے نئی صف بندی ہو سکتی ہے۔ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کے چرچے عام ہیں۔ بلوچستان میں تبدیلی کی باتیں ایک بار پھر سے زبان زدِعام ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بڑھتی سیاسی رنجشیں خاندانی اور قبائلی رنجشوں کا روپ دھار رہی ہیں۔ اصل ہدف اور شوشہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا تھا۔ گڈگورننس کا آسان حل یہ ہے کہ صوبے ختم کرکے پورے ملک میں ہر ضلع کیلئے ڈسٹرکٹ گورنر مقرر کیا جائے۔ وہ ضلع کے سیاہ و سفیدکا مالک اور عوام کے سامنے جوابدہ ہو۔ اس طرح ہر ضلع کے مابین ترقی اور مسابقت کی دوڑ شروع ہو گی،۔ صوبائی عصبیت کا خاتمہ ہو گا۔ تبدیلی کی باتیں اور مائنس پلس کی ریاضی دم توڑ دے گی۔ اسمبلیوںکے اخراجات ختم ہوں گے۔ امریکہ میں صدارتی نظام نے اسے عملاً دنیا بھر کا مالک بنا رکھا ہے جہاں جہاں دو دنیاوی خدا ہیں وہاں فساد ضرور ہے۔ افغانستان میں ایک ہی قد کاٹھ کے دو لیڈر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنسیں بہت ہوئیں، ایسی کانفرنسوں میں اصل بڑی پارٹیاں تو دو تین باقی ساری تانگہ یا چنگ چی رکشہ پارٹیاں ہوتی ہیں۔ 18 ہزار 660 ایکڑ رقبے پر پھیلی پاکستان سٹیل مل پہلے 20 سال منافع دیتی رہی لیکن آج سونا کا انڈا دینے والی بطخ بیمار پڑی ہے۔ 15 سال سے اس کے علاج پر اربوں خرچ ہو چکے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اب 12 عالمی کمپنیوں نے اس بیمار کو گودلینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ 2008ء تا 2013ء مل کا خسارہ 100 ارب روپے تھا۔ اگلے 5 سال میں 140 ارب ہو گیا۔حالیہ دو سال میں مزید 55 ارب اس کے خسارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ آٹے اور گندم کا معاملہ آج تک حل نہ ہو سکا، اس پر بھی کوئی جے آئی ٹی بنائی جائے لیکن بدنیتی اور بددیانتی کا کوئی علاج نہیں۔ صرف پنجاب کی گندم ملک بھر کے لئے پورے سال کیلئے کافی ہے لیکن تھر ہر سال قحط کی وادی بن جاتا ہے۔ سرکاری گوداموں میں پڑی گندم خراب ہو رہی ہوتی ہے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
26جون کو پٹرول کی قیمت میں یکایک 25.58روپے فی لٹر اضافہ ہوا۔تیل کی بنیادی قیمت 23.99روپے سے بڑھا کر 45.86روپے کر دی گئی۔ تیل کی قیمت میں 41روپے سے 44.55روپے فی لٹر ٹیکس شامل ہے۔ 1952ء کے بعد پہلی بار منفی جی ڈی پی گروتھ ریٹ دیکھا گیا۔ پاکستان کو یو این ڈی پی کے مطابق ہرسال 13لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے۔ بجٹ خسارہ 3800ارب روپے ہے۔ اقتدار کی 40فیصد آئینی مدت 17اگست کو ختم ہونے والی ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران سیاست میں جرم کافی داخل ہوگیا ہے۔ مجرموں کے گینگز، نسلی اورفرقہ وارانہ گروپوں نے جنم لیا۔ کراچی میں الطاف ازم کے ہاتھوں پچاس ہزار افراد مارے گئے۔ اچھے اور برے طالبان کی طرح اچھے اور برے دہشت گرد کی اصطلاعات ایجاد کی گئیں۔ شرابی نمازی بھی ہو تو کیا اسے آدھا اچھا اور آدھا برا کہا جائے گا؟ مخالف پریشر گروپ ہر دورمیں بنتے رہے، رکشا یونین بھی پریشر گروپ کا نام ہے۔ آپریشن کلین اپ کے باوجود گندگی اور مافیاز جوں کے توں ہیں۔ شدت پسند آج بھی ہیں، عزیر بلوچ جیسے کردار اور دہشت گرد آج بھی وجود رکھتے ہیں، ان کے ٹھکانے اور سہولت کار بھی موجود ہیں۔
حیران کن خبر ہے کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال صفر ہوگیا۔ ایسا ہے تو کراچی میںلوڈشیڈنگ کیوں نہ کنٹرول ہوسکی۔ لاہور میں ذرا دیر بارش ہو تو لیسکو کے فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں اور بجلی گھنٹوںبند رہتی ہے۔ کوئی ایس ڈی او یا اس کا عملہ کبھی فون نہیں اٹھاتا۔ باکمال لوگ، لاجوازب پرواز کو کس نے حال سے بے حال کیا؟ یورپی یونین کے 32ممبر ممالک نے پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹس گرائونڈ کرنے کی سفارش کی۔ 262مشکوک پائلٹس کی فہرست دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنی۔ 1946ء کو قائم ہونے والی پی آئی اے اپنے انجام کو پہنچی۔ نجکاری ہو بھی تو کثیر الاولاد بیوہ سے نکاح کون کرے گا؟ اسے فارما کمپنیوں کی طرح کسی غیرملکی ایئرلائن کے ساتھ مرج کر دینا ہی بہتر ہوگا۔ اونے پونے داموں تو ہر شے بک جاتی ہے۔ یہ غضب نہیں کہ سبزیاں 100روپے کلو تک مہنگی فروخت ہو رہی ہیں۔ ادرک 425، لہسن 280روپے کلو جس طرح لاک ڈائون کو ہوا میں اڑا دیا۔ اسی طرح دکاندار مقررہ ریٹ کو کیا سمجھتے ہیں۔ زرداری دور میں بھی غیراعلانیہ بدترین لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ ایک المیہ تھا۔ شدید احتجاج اس دور میں بھی ہوتے رہے، آج بھی اسی دور کا اعادہ ہے۔ پاک افغان سرحد 2430کلومیر طویل ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کل 18سرحدی پوائنٹ ہیں جن میں سے بیشتر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ پاک افغان تجارتی حلقوں کیلئے خوشی کی بات ہے کہ طورخم، چمن، غلام خان، انگور اڈا اور خرلاچی سرحدیں کھول دی گئی ہیں۔ 20سالہ افغان خانہ جنگی میں یہ مقامات حساس نوعیت کے تھے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گرد کے ٹھکانے آج بھی سکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ مشترکہ سرحد کو دہشت گردوںسے پاک رکھنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔ خراب کارکردگی کو ماضی کی حکومتوں 18ویں آئینی ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ عزیر بلوچ جیسے کردار تو بھارت اور اسرائیل میںبھی ڈھونڈنے سے نہ ملیں گے جس نے زردری کو چالیس گھروں اور 14شوگر ملوں کا قبضہ لے کر دیا۔ 198افراد کا قاتل، 56مقدمات میں ملوث، 250فیکٹری مزدوروں کو زندہ جلایا، ایسے بھیانک کردار کا تعلق کس دور حکومت سے ہے۔ سیاسی محاذ ہر بڑھتے ہوئے تنائو کا انجام کیا ہوگا۔ حکومت کی کامیابی اپوزیشن کو دبانے میں نہیں بحران ختم کرنے میں پوشیدہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38