تب جسٹس سنہا اپنی کھر دری آواز میں بولا :’’ تفصیلی فیصلہ تو 258 صفحات پر مشتمل ہے مگر میں یہاں محض مختصر فیصلہ سنائوں گا ۔‘‘ اور تبھی کمرہ عدالت میں اس کی آواز گونجی :’’ راج نارائن کی رٹ منظور کر لی گئی ہے ۔‘‘ یہ سنتے ہی ایک ثانئے کیلئے عدالتی ہال میں موت کی سی خاموشی چھا گئی مگی یہ کیفیت لمحاتی تھی ۔عدالتی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے تالیوں کی گونج سے در و دیوار ہلنے لگے ۔ صحافی فوراً ٹیلی فونوں کی جانب لپکے اور خفیہ اہلکاروں نے اپنے دفاتر کا رخ کیا ۔
دس بج کر دو منٹ پر ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی سلیشن مہاراج کو دوبارہ خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی ۔ مشین سے نکلنے والے کاغذ کی سلپ پر جلی حروف میں تحریر تھا :’’ شری متی اندرا گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی گئی ۔‘‘ سلیشن نے جلدی سے وہ کاغذ الگ کیا اور اس کمرے کی جانب بھاگا جہاں وزیر اعظم بیٹھی تھیں ۔ اس کمرے کے باہر اندرا کا بڑا بیٹا راجیو گاندھی بے چینی سے ٹہل رہا تھا ۔ ’’سلیشن ‘‘ نے ماتمی صورت بناتے ہوئے کاغذ اس کے حوالے کیا ۔ ’’راجیو‘‘ دھیمے قدموں سے کمرے میں داخل ہوا اور ماں سے مخاطب ہوا :’’ ممی ! انہوں نے آپ کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی ہے ۔‘‘ اندرا گاندھی نے یہ الفاظ بڑے تحمل سے سنے اور کسی جذباتی رد عمل کا اظہار نہ کیا ۔ شاید اس کی چھٹی حس پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ چکی تھی ۔ یوں بھی گذشتہ روز سے وہ بڑی بجھی بجھی تھی کیونکہ اس کا انتہائی قابل اعتماد مشیر :’’درگا پرشاد دھر ‘‘ (یہ وی ’’ڈی پی دھر‘‘ تھا جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا) ایک دن پہلے فوت ہو گیا تھا اور اندرا اس کی موت کو اپنے لئے برا شگون مان کر کافی رنجیدہ تھی ۔چند ثانیوں بعد ’’سلیشن ‘‘ دوسرا پیغام لے کر کمرے میں داخل ہوا ۔
مسز اندرا گاندھی کو چھ سال کے لئے کسی بھی سطح کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا ۔ ‘‘ یہ خبر یقینا شری متی جی کیلئے صدمے کا باعث بنی ۔ آہنی اعصاب کی مالک اس خاتون نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوئوں کو روکا اور چہرے کے تاثرات چھپانے کیلئے وہاں سے اٹھ کر سٹنگ روم کی جانب بڑھ گئی ۔ اسی دوران فیصلے کی قدرے تفصیل بھی موصول ہو گئی ‘ جس کے مطابق اندرا گاندھی کے خلاف دو بڑے الزامات عائد کیے گئے ۔ ’’یش پال کپور ‘‘ نے سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے اندرا کے کاغذات نامزدگی پر تائید کنندہ کی حیثیت سے اپنے دستخط کیے اور یہ 7 جنوری 1971 کی بات تھی جب کہ ’’ کپور ‘‘ نے سرکاری ملازمت سے اپنا استعفیٰ 13 جنوری کو پیش کیا جو 25 جنوری 1971 کو منظور ہوا لہذا اس غلطی کو سنگین بد عنوانی قرار دیا گیا ۔ ( 2 )وزیراعظم پر دوسرا الزام یہ تھا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یو پی کی صوبائی انتظامیہ سے ’’ روسٹرم ‘‘ تیار کرایا تھا اور اس کے انتخابی جلسوں کے سبھی انتظامات ضلعی انتظامیہ نے کیے ۔
موجودہ صورتحال میں فوری استعفیٰ دینے کے سوا اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں بچا ۔اور پھر ’’ الہٰ آباد‘‘ سے تازہ ترین پیغام وصول ہوا۔ جس کے مطابق ’’ جسٹس سنہا‘‘ اپنے ہی فیصلے پر فوری عمل درآمد کے خلاف بیس روز کے لئے حکم امتناعی جاری کر دیا تھا تا کہ سرکاری پارلیمانی پارٹی (کانگرس) کو اپنا نیا لیڈر چننے کے لئے مناسب وقت مل سکے ۔ یہ سنتے ہی اندرا سمیت سبھی حاضرین کے چہرے دوبارہ کھل اٹھے تھے کیونکہ اب انہیں اپنی ریشہ دوانیوں کے لئے بیس روز کی مزید مہلت مل گئی تھی ۔ اس وقت بڑا بیٹا ’’راجیو گاندھی ‘‘ ماں کے پاس تھامگر چھوٹا 28 سالہ بیٹا ’’سنجے گاندھی ‘‘ اپنی کار فیکٹری ’’ ماروتی ‘‘ گیا ہوا تھا اور ماں اپنے اسی بیٹے کی شدت سے منتظر تھی کیونکہ اندرا گاندھی کو سنجے گاندھی سے بڑی توقعات وابستہ تھیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک سازشی ذہن کا مالک تھا لہذا ’’ اندرا ‘‘ کو یقین تھا کہ وہ اپنی جوڑ توڑ کی صلاحیت کے بل بوتے پر موجودہ مسائل کا کوئی حل ضرور نکال لے گا ۔
اسی دوران ’’ سنجے گاندھی ‘‘ اندر داخل ہوا ۔ اسے یقینا ساری صورتحال کا علم ہو چکا تھا ۔ اس کے آتے ہی شری متی جی نے تمام لوگوں کو دوسرے کمرے میں جانے کو کہا ۔ البتہ ’’راجیو‘‘ کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا ۔ تینوں ماں بیٹے کافی دیر سرگوشیوں میں مصروف رہے ۔ دونوں ہی ماں کے استعفیٰ دینے کے سخت خلاف تھے ۔ سنجے گاندھی نے یقین دلایا کہ حوصلے سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد اندرا گاندھی اسٹور روم میں چلی گئی ۔ اس کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب بھی زیادہ پریشان ہوتی تو ’’ سٹور‘‘ میں بند ہو کر بیٹھ جاتی اور وہیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سنجے کو بھی اندر بلا لیا ۔ لاشعوری طور پر وہ ’’ سنجے ‘‘ کو اپنی آخری پناہ گاہ تصور کرتی تھی ۔ سنجے نے اپنے دو معتمد ترین ساتھیوں ‘ 52 سالہ ’’بنسی لعل ‘‘ اور 35 سالہ ’’ آر کے دھون ‘‘ کو بھی اندر بلا لیا اور آئندہ کی پلاننگ شروع ہو گئی ۔ چند سال پہلے تک آر کے دھون ریلوے میں 400 روپے ماہانہ کا کلرک تھا ۔ مگر اپنی عیارانہ صلاحیتوں اور ’’ یش پال کپور ‘‘ کا بھانجا ہونے کے سبب تھوڑی ہی مدت میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا مضبوط ترین شخص بن گیا ۔ اندرا اور سنجے ان دونوں پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور ہر معاملے میں ان کے مشورے کو فوقیت دی جاتی تھی ۔ لہذا اس روز بھی اخری فیصلہ یہی ہوا کہ بھارتی عدلیہ کو پائوں تلے کچل کر مسل ڈالا جائے ۔ اندرا کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا ‘ چنانچہ انہوں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا اور 26 جون کو دنیا کی ’’ سب سے بڑی جمہوریت ‘‘ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور اندرا نے اپنے ناقدین پر جیلوں کے دروازے وا کر دیئے ۔ بہرکیف اس مرحلے پر بھارتی صدر فخرالدین علی احمد نے بھی اندرا کا حق نمک ادا کرتے ہوئے بھارت بھر میں داخلی ایمرجنسی کو سختی سے نافذ کرایا اور آئینی طور پر تمام بنیادی انسانی حقوق کو معطل کر کے بدترین قسم کی سنسرشپ کا نفاذ کر دیا۔ واجپائی، ایڈوانی، جے پی نارائن، بھیرون سنگھ شیخاوت، چوہدری چرن سمیت 1 لاکھ چالیس ہزار رہنمائوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا یہاں ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں موجود جیلوں میں جگہ کم پڑ گئی۔ اگر حالات کا بغور جائزہ لیں تو بھارت میں آج بھی کم و بیش وہی حالات ہیں اور یوں اندرا گاندھی اور مودی کی شخصیت میں بہت سی مماثلتیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ( ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38