چیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کا اجلاس 23جولائی کو طلب کرلیا،اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کے لیے جمع کروائی گئی ریکوزیشن کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اجلاس منگل 23 جولائی کو سہ پہر 3 بجے طلب کیا ہے،اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن میں سینیٹ اجلاس کا کوئی ایجنڈا نہیں بتایا گیا۔واضح رہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد جبکہ اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروائی تھی۔اس سے قبل چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اجلاس بارے اپوزیشن کیساتھ پارلیمانی رہنمائوں کو ان کے خط کا جواب دے دیا ، چیئرمین سینٹ کے امیدوار میر حاصل بزنجو اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کو بھی خطوط لکھے گئے . صادق سنجرانی نے دعوی کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے لڑ رہے ہیں ,عدم اعتماد کی قرارداد کا آئین اور ضابطہ کار کے تحت سامنا کرنے کو تیار ہوں۔ صادق سنجرانی نے پاکستان مسلم لیگ(ن)،پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)،نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں مشاہد اﷲ خان،شیری رحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، میر حاصل بزنجو،عثمان خان کاکڑ،ستارہ ایاز اور اپوزیشن لیڈر کو اجلاس سے متعلق اپنے خط کے جواب میں اپوزیشن کے لکھے گئے خط کا جواب ارسال کر دیا ,ایک روز قبل یہ خط چیئرمین سینٹ کو پیش کیا گیا تھا ,اپنے جواب میں صادق سنجرانی نے کہا کہ آئین اور ضابطوں کے تحت سینٹ اجلاس کی کارروائی ہو گی ,اس سارے عمل کے دوران اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ چیئرمین کی رولنگ کمزور نہ ہو۔میری ذات کا مسئلہ نہیں ہے میں ملک اور بیرون ملک سینٹ آف پاکستان کے عزت و وقار کے لیے کھڑا ہوں۔انہوں نے دعوی کیا کہ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہے ہیں ,چیئرمین کی رولنگ کی جنگ کررہا ہوں, عدم اعتماد کی قرارداد کا سامنا کرنے کو تیار ہوں ,آئینی اور ضابطوں کے مطابق طریقہ کار ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔بطور نگران چیئرمین سینٹ کی رولنگ کا تحفظ میری ذمہ داری ہے انکا یہ خط تین صفحات پر مشتمل ہے۔۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے سینیٹ کے متوقع اجلاس کے لیے تمام سینیٹرز کو اسلام آباد موجود رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک منظوری کے لئے 53 ارکان کی حمایت درکار ہیں. ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اپنے ارکان کو تحریک 60 سے زائد ارکان کی اکثریت سے منظور کرانے کا ہدف دے دیا ہے۔یاد رہے گزشتہ روز اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اجلاس بلا کر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے 9 جولائی کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف جبکہ حکومتی اراکین نے 12 جولائی کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر نیشنل پارٹی (این پی)کے سربراہ حاصل بزنجو کو نیا چیئرمین سینیٹ نامزد کیا تھا۔ موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی نے گزشتہ برس 12 مارچ کو پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے 57 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن)کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے.
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024