چاند کب نکال رہے ہو۔ آرمی چیف نے فواد چوہدری سے سوال کر دیا اور محفل میں قہقہے گونجنے لگے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری یہی سوال تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔ فواد چوہدری کی یہی ترقیاتی کارکردگی ہے۔ ہر سال ہر حکومت رویت ہلال کمیٹی چاند نکالنے کی کارکردگی ہی بڑے فخر سے پیش کرتی ہے۔ فواد چوہدری جیسے وفاقی وزیر نے رویت ہلال کمیٹی کے ممبر بھی نہیں ہیں مگر اس معاملے میں آگے آگے ہوتے ہیں اور چاند کے بارے میں بڑھ بڑھ کر خبریں دیتے ہیں کہ جیسے یہی حکومت کی کارکردگی ہو اور یہی لوگ چاند نکال رہے ہیں، اسے متنازعہ بنانے میں بھی انہی لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسے قومی مسئلہ بنانے کا مسئلہ بھی انہی کا ہوتا ہے اور تو یہ لوگ لوگوں کے لئے کچھ کر نہیں سکے؟ ابھی تک؟ ابھی تحریک انصاف سے کچھ اُمید سی ہے۔ اُمید سی تو ہر حکومت سے ہوتی ہے اور ہر حکومت ’’امید سے‘‘ تو ہوتی ہے مگر…؟ فواد چوہدری قومی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھانے والے ہیں کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کیا جائے۔
پاکستان میں بھارتی جاسوس کو سزائے موت تو سارا کریڈٹ امریکہ نے لے لیا جبکہ سزائے موت امریکہ میں نہیں ہوتی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں تو ایک سال سے زور دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ پاکستان کے ایک جید عالم دین اور مجاہد کشمیر حافظ محمد سعید کو لاہور میں گرفتار کر لیا گیا۔ حافظ صاحب کو تو اسی کام کے لئے رکھا ہوا ہے۔ یعنی امریکہ کے نزدیک دہشت گردی کے حوالے سے بھارت اور پاکستان برابر ہیں۔ اس موقع پر حافظ صاحب کو گرفتار کرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ کیا وزیراعظم عمران خان کو اس معاملے کی اطلاع نہیں ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان انہیں آگاہ کریں۔ اُن کی رفاقت کا عمران خان کو فائدہ ہے۔ مصر میں بھارت کے سفیر نے اسے سب کی جیت قرار دیا ہے۔
٭٭٭٭
چوہدری نثار سے زیادہ ملاقات نہیں ہے مگر اُن کے لئے میرا خیال بہت اچھا ہے۔ وہ جرأت اور استقامت کا پیکر ہیں۔ دو چار دن پہلے انہیں سینے میں درد ہوا اور انہیں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں منتقل کیا گیا۔ میں دل و جان سے اُن کے لئے دعا گو ہوں۔ وہ وفا اور حیا والے آدمی ہیں۔ ایسے لوگ ہماری سیاست میں کم کم ہیں۔ کئی بار نواز شریف سے ان کے سیاسی مسائل پیدا ہوئے۔ آج کل بھی وہ کہیں نہیں ہیں۔ وہ سات آٹھ سے زیادہ بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے جبکہ کہیں کسی حلقے سے دوسری بار بھی منتخب ہونا بھی بہت دشوار ہوتا ہے۔ اُن کی ذاتی دوستی عمران خان سے ہے۔ وہ غالباً ایچی سن کالج میں کلاس فیلو تھے۔ بالآخر انہیں تحریک انصاف میں آنا پڑے گا۔ یہاں انہیں عمران خان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان ڈکٹیٹر لگتے ہیں مگر ہیں نہیں۔ نواز شریف ڈکٹیٹر ہیں مگر لگتے نہیں ہیں۔
٭٭٭٭
عمران خان میانوالی ہو کر آ گئے ہیں۔ یہ بھی کافی ہے۔ یہ عمران کا بڑی دیر سے ارادہ تھا اور وعدہ تھا۔ وعدہ نجانے کس کے ساتھ تھا۔ شیخ رشید وزیر ریلوے کی کوشش بھی تھی میانوالی سے ایک لگائو تو عمران خان کو ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو بھی ہو گا مگر مجھے معلوم نہیں نمل یونیورسٹی تو وزیراعظم سے پہلے کی بات بھی ہے۔ یوں بھی جو کام عمران خان نے ملک و قوم کے لیے کئے ہیں وہ بھی وزیراعظم بننے سے پہلے کی بات ہے۔ ورلڈ کپ‘ شوکت خانم ہسپتال وغیرہ مگر عمران خان کو وزیراعظم بنانے والے مایوس نہیں ہوئے۔
٭٭٭٭
شاہد خاقان عباسی پاکستانی ججوں کو بدنام کر رہے ہیں یہ سیاسی طریقہ نہیں۔ خاقان عباسی آج کل سیاست تو کر نہیں رہے ہیں کہتے ہیں ایک جج پکڑا گیا باقی بھی کئی پکڑے جائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ ججوں کو پکڑوانے کے لیے عباسی صاحب کی کوشش جاری رہے گی۔ آج کل خاص طور پر وہ اسلامی دور کی سلطنت عباسیہ کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کر رہے ہیں۔ مگر ان بادشاہوں میں ابھی تک اُن کے جیسا وزیراعظم یعنی حکمران یعنی ’’بادشاہ‘‘ خاقان عباسی صاحب کو نظر نہیں آیا۔ نواز شریف کے بعد ان کی نظر نہیں ٹھہرتی۔ آج کل مریم نواز کی وجہ سے وہ کچھ اطمینان میں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ سب جھوٹے ہیں۔ اس ضمن میں وہ حکومت اور اپوزیشن میں کچھ فرق نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ ’’سچ‘‘ بولتے ہیں مگر آج کل وہ سچ کو بھی جھوٹ سمجھتے ہیں۔ سیاست میں تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ وہ یہ بتائیں کہ چودھری نثار کی موجودگی میں نواز شریف کا سیاسی سچ یہ تھا کہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا۔
٭٭٭٭
مریم اورنگ زیب اور شاہد خاقان عباسی صرف عمران خان کے خلاف بیان بازی کے لیے نامزد ہیں بلکہ مقرر ہیں۔ ان باتوں میں حق ناحق کا کوئی فرق نہیں۔ مریم اورنگ زیب کو مریم نواز لے کے آئی اور شاہد خاقان عباسی کو نواز نے سیاست میں بھجوایا ہے۔ مریم اورنگ زیب کوشش کر رہی ہے کہ مریم نواز سے آگے نکل جائے مگر اس کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ البتہ مریم اورنگ زیب کے بیانات تعداد میں مریم نواز سے بہت زیادہ ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف کا اعتماد قائم رکھیں جس میں وہ کامیاب ہیں۔
نامور شاعرہ شاہدہ لطیف نے اپنا شعری مجموعہ ’’معرکۂ کشمیر‘‘ مجھے بھجوایا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سو نظمیں شامل ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ 14 جولائی 2001ء کو جب ہمارے صدر جنرل پرویز مشرف کشمیر مذاکرات کے لیے بھارت جا رہے تھے تو اس وقت میرا یہ شعری مجموعہ معرکہ کشمیر اشاعت پذیر ہوا۔ اب 2012ء میں بھارت پھر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و شقاوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے تو میں اس موقع پر شعری مجموعہ ’’معرکۂ کشمیر‘‘ کی اشاعت دوم سامنے لا رہی ہوں یقیناً اس سے مسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
آج بھی گرد سیاست میں نہیں چُھپ سکی
وہ محبت جو مجھے واد
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024