وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور کرپشن کے بعد سب سے بڑا مسئلہ سمگلنگ ہے۔ سمگلنگ کو روکے بغیر مقامی صنعتوں اور اپنی مارکیٹ کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے احتساب کے عمل اور بینظیر بھٹو قتل کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میں اس حادثے کا ذمہ دار ہوں تو آصف زرداری پانچ سال صدر رہے وہ مجھے پھانسی لگا دیتے۔ اعجاز شاہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کارکردگی کی بنیاد پر ہوئی ہیں اگر کرپشن کی وجہ سے کسی کو ہٹایا جاتا تو وہ اندر ہوتا۔ شاہد خاقان نے کچھ کیا ہو گا تو گرفتاری ہوئی ہے۔
اعجاز شاہ کی شخصیت کی سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ گھما پھرا کر بات کرنے کے بجائے واضح اور دو ٹوک انداز میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ اہم وزارت کے معاملات دیکھتے ہوئے بھی وہ خیالات کے اظہار میں مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتے۔ مسئلہ پرویز مشرف کا ہو، موجودہ حکومت میں احتساب کے عمل کا ہو، ان پر عائد الزامات کا ہو یا پھر اہم سیاسی شخصیات کے بیانات کا اعجاز شاہ کھلے الفاظ میں بات کرتے ہیں۔ ایسا انداز بیاں مشکلات کھڑی کرتا ہے لیکن کبھی کوئی ابہام نہیں چھوڑتا۔ صاف گوئی اختیار کرنے سے سٹیک ہولڈرز برا تو مناتے ہیں لیکن سب سے اہم یہی ہے کہ سچ بات کی جائے۔ حقیقت عوام کے سامنے رکھی جائے۔ معاشرے میں سب سے زیادہ کمی سچ بولنے اور سننے کی ہے۔ جھوٹ عام ہے اور مسائل کی بڑی وجہ ہی دروغ گوئی ہے۔ حکمران عوام کو سچ نہیں بتاتے۔ اس پہلو کو دیکھا جائے تو اعجاز شاہ معاشرے کی اصلاح کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
قارئین کرام بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ وزارت داخلہ کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور اس وزارت میں انہوں نے ملک کو درپیش بہت بڑے مسئلے کو حل کرنے کا عزم کیا ہے۔ ہماری رائے میں انہوں نے ایک بڑے مافیا کے ساتھ جڑے اہم افراد کی دکھتی رگ کو چھیڑا ہے۔ انہوں نے بااثر، بااختیار اور طاقتور افراد کے غیر قانونی کاروبار کو بند کرنے کی طرف قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ سمگلنگ روکنے کے لیے انہیں بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بارڈرز پر کون کیا کرتا ہے، وہاں کس کی کیا مصروفیات ہیں، کس کی نقل و حرکت کیا ہے، کس کی دلچسپیاں بارڈر کے اردگرد ہیں، کون بارڈر کے ذریعے کروڑوں اربوں کی سمگلنگ کر کے صنعتوں کا بیڑہ غرق کر رہا ہے۔ کون لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ اس حوالے سے اعجاز شاہ کے پاس خاصی معلومات ہونگی۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سمگلنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ جیسے ریاستی اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کام کیا ہے، ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے سمگلنگ کو روکنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔ ملک کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے تو مقامی صنعتوں کی بقا اور ترقی کے لیے سمگلنگ کو روکنا ناگزیر ہے۔ سمگلنگ کے ذریعے ملک میں آنے والی چیزیں کم داموں دستیاب ہونے سے پاکستان میں بننے والی اشیاء کی خرید و فروخت میں نمایاں کمی سے اپنے صنعتکاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے اب قدم اٹھایا ہے تو انہیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اس موقف پر سختی سے قائم رہتے ہوئے دہشت گردی اور کرپشن کے ساتھ سمگلنگ اور سمگلروں کا بھی خاتمہ کر دیں۔ وہ اس مقصد میں کامیاب رہے تو ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ ہماری دعا ہے کہ اس سلسلہ میں انہیں غیر معمولی کامیابی ملے۔
قارئینِ کرام لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مامون رشید شیخ کے لیے ہمارے دل میں بہت قدر ہے۔ ہم انکی عدالت کے حوالے سے جب بھی کوئی خبر سنتے ہیں تو ان کی صحت اور کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ جسٹس مامون رشید شیخ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے اور ذخیرہ اندوزوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اس کیس میں انتظامیہ کا اصل اور منفی کردار بھی عوام کے سامنے آ رہا ہے۔ گذشتہ روز بھی نوائے وقت کے صفحہ اول پر اس کیس کی کوریج ہوئی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر دس روپے کی چیز سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے تو انتظامیہ ایکشن کیوں نہیں لیتی۔ عدالت نے مہنگائی کنٹرول نہ کرنے پر ایڈیشنل کمشنر کی سرزنش بھی کی۔ ہائیکورٹ نے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف دائر درخواستوں پر لوکل گورنمنٹ اور دیگر محکموں سے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ گزشتہ سماعت کی طرح محکمہ لائیو سٹاک کے حکام اس سماعت پر بھی عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ محکمہ لائیو سٹاک آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کے ساتھ آئے۔
مہنگائی کے قابو نہ کرنے کی سب سے بڑی ذمہ دار انتظامیہ ہے کیونکہ افسران ٹھنڈے کمروں سے باہر ہی نہیں نکلتے نہ وہ فیلڈ میں جاتے ہیں نہ انہیں مسائل کا اندازہ ہے جب انہیں مسائل کا اندازہ نہیں ہے تو وہ اسے حل کیسے کر سکتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کا اپنے دفاتر تک محدود رہنا باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر وہ فیلڈ میں جائیں گے تو کام کرنا پڑے گا، کام کریں گے تو طاقتور مافیا ناراض ہو گا، جب مافیا ناراض ہو گا تو عہدہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے، دیگر مسائل بھی پیش آئیں گے۔ اس کھیل میں عوام پستے رہتے ہیں اور مہنگائی بڑھتی رہتی ہے تین فیصد طبقہ دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹتا ہے۔ عوام کا خون چوستا رہتا ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ اگر مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو قابو کرنا ہے تو صوبے اور مرکز کی سطح پر آزاد، خود مختار اور بااختیار ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں مسائل کھڑے کرنے والوں کے ساتھ بے رحمی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر عوام عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اس سلسلہ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اب بھی وقت ہے صوبائی اور مرکزی حکومت اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024