مہنگائی کیخلاف عدالت عالیہ کے چشم کشا ریمارکس
ہائیکورٹ نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف دائر درخواستوں پر لوکل گورنمنٹ اور دیگرمتعلقہ محکموں سے رپورٹ طلب کر لی۔ فاضل عدالت نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف دائر رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ اگر 10 روپے کی چیز 100 روپے میں فروخت ہو رہی ہے تو انتظامیہ ایکشن کیوں نہیں لیتی۔
اس وقت ملک بھر میں مہنگائی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جس کے باعث عام آدمی کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ عوامی سہولت کیلئے حکومت نے جگہ جگہ ماڈل اور اتوار بازاروں کا اہتمام کیا ہوا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان بازاروں میں بھی عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملتا۔ان بازاروںمیں اشیاء کا معیار بہتر نہیں ہوتا۔ ایسے ہر بازار میں انتظامیہ موجود ہوتی ہے جو اشیاء کے معیار اور انکے نرخوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اسکے باوجود قیمتوں اور معیار پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔اگر ان بازاروں کیخلاف عوامی شکایات برقرار رہتی ہیں تو حکومت کو اس خرابی کا کھوج لگانا چاہیے اور ان منافع خوروں کیخلاف بھی سخت کارروائی کی کرنی چاہیے جو من مانے نرخوں پر اشیاء فروخت کرکے نہ صرف عوام بلکہ حکومت کیلئے بھی مشکلات پیدا کررہے ہیں۔عوام کے حقوق کا تحفظ بلاشبہ ریاست کی ذمہ داری ہے اگر یہ ذمہ داری بخوبی ادا ہو رہی ہو تو عدلیہ کو ریاست کے معاملات کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ لاہور ہائیکورٹ کو اسی تناظر میں باور کرانا پڑا کہ سستے داموں اشیاء کی دستیابی ممکن نہیں تو ماڈل بازاروں کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ بہتر ہے کہ حکومت اپنی رٹ کو مؤثر بنائے تاکہ ماڈل بازاروں کے علاوہ عام بازاروں اور مارکیٹوں میں بھی عوام کو کنٹرول نرخوں پر اشیائے ضروریہ دستیاب ہوں۔ اگر حکومت کے بقول اس نے کسی چیز کے نرخ نہیں بڑھائے تو نرخوں میں اضافہ سے اسکی اتھارٹی چیلنج ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں ہائیکورٹ کے ریمارکس اس کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں۔