ہفتہ‘ 16؍ ذیقعد 1440ھ‘ 20؍جولائی 2019ء
آرمی چیف کا فواد چودھری سے دلچسپ مکالمہ: ’’عید کا چاند کب نکال رہے ہو‘‘!
اہل وطن طویل عرصے سے عید بقر عید رمضان المبارک ’محرم الحرام کے چاند کے بارے میں مفتی منیب الرحمن پر انحصار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مفتی صاحب محض ایسے ہی مسند افتاء پر فائز نہیں ہو گئے بلکہ واقعتا فاضلِ اجل اور عالم بے بدل ہیں۔ اسلامی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ نامور کالم نگار ہیں۔ یہ ہماری کج فہمی تھی کہ ہم بھی اُنہیں عرصہ تک موضع شوری شریف کے مدرسہ جلالیہ کے مفتی سمجھتے رہے لیکن اُن کے جوہر چند ایک قربتوں پر کھلے اور ہم جو سائنس کے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے اور برسوں رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاسوں کو نعوذ بااللہ تماشا سمجھتے رہے اور دلیل دیا کرتے کہ چاند دیکھنے کا یہ طریقہ مذہب اسلام کے لیے جو سراپا سائنس ہے جگ ہنسائی کا باعث ہے۔ بہرحال جب آنکھوں پر چھایا لبرل ازم کا پردہ اُترا تو اپنے احمقانہ خیالات پر افسوس ہوا۔ ابھی ہمیں رویت ہلال کمیٹی کی افادیت کا قائل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آ گئی۔ تحریک کے جلالی رہنما فواد حسین چودھری وزیر اطلاعات و نشریات اور پھر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی مقرر ہوئے۔ فواد چودھری بیورو کریٹس کی اُنگلی پکڑ کر چلنے والے وزراء میں سے نہیں ہیں چنانچہ اُنہوں نے اکیسویں صدی میں رویت ہلال کمیٹی کے جواز کو چیلنج کر دیا۔ جانبین کی طرف سے شروع ہونے والے مناظرے نے مجادلہ کی کی شکل اختیار کر لی اور پھر چل سو چل ، انجام یہ ہوا کہ نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا لیکن اتنا ضرور ہوا کہ فواد چودھری کی شہرت عام ہو گئی کہ وہ بھی چاند نکال سکتے ہیں۔ غالباً ایسی شہرت کے زیراثر آرمی چیف نے بھی فواد چودھری سے پوچھ لیا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف کے سوال پر مجلس میں شگفتگی کی لہر دوڑ گئی۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جیوتش ودیا یعنی علم النجوم بھارتی یونیورسٹیوں میں ایم اے تک پڑھایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل دو ہندو اداروں کی جنتریاں بڑی مشہور تھیں اور اُن کا حساب اس قدر درست ہوتا تھا کہ خود مسلمان اُن پر اعتماد کرتے تھے۔ اُن میں ایک جنتری کا نام مفید عالم اور دوسری کا نام سردار عالم ہے۔ جیوتش سمراٹ پنڈت پنا لال کی جنتری سردار عالم کا کارخانہ تقسیم کے بعد لاہور سے لدھیانہ منتقل ہو گیا۔ راقم خود ایک عرصہ تک سردار عالم جنتری سے استفادہ کرتا رہا۔ چاند کی تاریخیں حیرت انگیزحد تک درست پائیں۔
٭٭٭٭٭
ایک صدر 6 وزرائے اعظم گرفتار
مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گزشتہ روز گرفتار ہو گئے تو آج کم و بیش سبھی اخباروں نے پرانی تاریخ بھی چھاپ دی ہے کہ 1962ء سے اب تک ایک صدر (صدر زرداری) اور 6 وزرائے اعظم کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ اب اُن میں سے بعض ایسے نام بھی ہیں کہ سخت تعجب ہوتا ہے کہ وہ بھی! مثلاً حسین شہید سہروردی، قائد اعظم کے قریبی رفیق، تحریک پاکستان کے صفِ اول کے رہنما، باقی حضرات کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف (صدر) آصف زرداری اور اب شاہد خاقان عباسی۔ ان میں سے بعض غلط کاموں کی وجہ سے حوالۂ زنداں ہوئے اور بعض سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھے۔ یہ فہرست آئینہ عبرت ہے۔ آنے والوں لیے تنبیہ! کہ اگر سیدھے نہ چلے تو تمہار انجام بھی یہی ہو گا۔ پھر یہ فہرست جسے تاریخ کے اسباق کہنا چاہئے اس میں یہ سبق بھی ہے کہ اگر اقتدار ملے تو متکبر نہ ہوں، اکڑ کر نہ چلیں، اس طرح چلنے سے نہ تم زمین پھاڑ سکو گے نہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے بلند ہو جائو گے۔ حسین شہید سہروردی سیاسی انتقام کا نشانہ بنے، وفات لبنان میں جلاوطنی میں ہوئی۔ اُن کو جب جیل ہوئی تو کسی نے بڑا فکر انگیز تبصرہ کیا کہ آج حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کو پابند سلاسل کر دیا ہے اور ہوا بھی ایسے ہی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بلاشبہ بہت مقبول تھے۔ پھانسی کی سزا ہوئی تو کہا اگر اُنہیں پھانسی دی گئی تو زمین پھٹ جائے گی اور آسمان روئے گا۔ ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے کہ اس سے برادران وطن کی بہت بڑی تعداد کا دل دکھے گا۔ جہاں تک راقم کا مطالعہ ہے متکبر اور ناانصاف کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ ! تاریخ نے تو وہ واقعات بھی بڑی حفاظت کے ساتھ ہم تک پہنچا د ئیے ہیں جب اقتدار کی خاطر بھائیوں نے بھائیوں کے گلے کاٹے ۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے بڑا فکرانگیز درس دیا ہے اور جسے حکمرانوں کو بھی حرزِ جاں بنا لینا چاہئے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!
٭٭٭٭٭
کرنا افتتاح وزیر اعظم کا نئی ٹرین میانوالی ایکسپریس کا
یہ گاڑی لاہور سے ماڑی انڈس تک چلے گی۔ گاڑی تمام متداول درجوں پر مشتمل ہو گی۔ لاہور سے ماڑی انڈس کا اکانومی کلاس یعنی غریب غربا کا کرایہ 400 روپے اور ائرکنڈیشن کا ایک ہزار روپے رکھا گیا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والی ریلوے نارتھ ویسٹرن ریلوے کہلائی۔ بھارت نے بوگیوں کی تقسیم میں بھی بڑی ڈنڈی ماری۔ مال گاڑی کے اچھے اچھے ڈبے اور مسافر گاڑیوں کی بوگیاں اور بالخصوص لگژری قسم کی بوگیاں روک لیں۔ نئی نئی آزادی ملی تھی لوگوں میں بڑا جوش تھا۔ اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ اہلکار تک نے ریلوے کو چلانے اور کامیاب بنانے میں دن رات ایک کر دئیے۔ مغلپورہ لاہور کی ورکشاپ ، خانیوال کی ورکشاپ اور ٹیکسلا کی ورکشاپ اپنی اپنی جگہ ایک کارخانہ تھیں، جہاں نہ صرف بوگیاں اور ڈبے بنتے تھے بلکہ انجنوں کی اوورہالنگ بھی ہوتی تھی۔ تب عزائم یہ تھے کہ ریلوے انجن بھی مقامی ورکشاپوں میں ہی بنائے جائیں۔ متحدہ ہندوستان میں ریلوے کی پٹڑیاں ٹاٹا سٹیل سے بنتی تھیں۔ پاکستان کے پاس نہ سٹیل تھی اور نہ کوئی ایسی فیکٹری۔ اُس زمانے میں ریلوے انجن سٹیم اور کوئلے والے ہوتے تھے۔ ا ن کی شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ پاکستان کے بننے کے تقریباً بیس سال تک ریلوے منافع میں چلتی رہی ، ورکشاپیں بھی اپنا کام ٹھیک کرتی رہیں مگر پھر ریلوے میں بھی وہی دیو پھر گیا جو قومی زندگی کے دوسرے شعبوں کو بھی کھا گیا ، نہ وہ ورکشاپس رہیں نہ وہ انجن رہے، حتیٰ کہ ریلوے ٹریک میں ایک انچ کا اضافہ نہ کیا جا سکا۔ بددیانت اور حرام خور سب کچھ کھا گئے۔ آج ریلوے مسیحا کے انتظار میں ہے ، پچھلے دس ماہ میں نوے ٹرین حادثے ہو چکے ہیں اور خسارہ 30 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی ریلوے پر بھی بہار آ جائے!
٭٭٭٭٭