پنشنرز کا عمر رسیدہ ریٹائرڈ ملازمین کو اپنے سکونتی اضلاع سے منسلک کرنے کی استدعا
پینشن آن لائن سکیم ظاہراًتو عمر رسیدہ پنشنرز کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ایک دو سال گزرنے کے لئے متعارف کرائی گئی تھی ۔ لیکن اس سکیم کے تحت جو پنشنرز اپنے مستقل رہائشی یا سکونتی ضلع سے باہر دیگر اضلاع سے ریٹائر ہوئے تھے ان کیلئے شدید مشکلات پیدا ہوگئیں ۔ نیشنل بنک کی طرف سے انکی پنشن بک انکا ریکارڈ واپس کرکے انکے ریٹائر ہونیوالے ضلع کے ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفس کو بھجوا دی گئیں یہ پنشن بک (اصل) پنشنرز کے پاس ہواکرتی تھیں ہر سال پنشن بینک کی متعلقہ برانچیں انکی پنشن میں سالانہ اضافہ (بجٹ سالانہ کی روشنی میں) مختص کرتا تھا۔ لیکن مذکورہ یا تبدیل شدہ پالیسی کے تحت اصل پنشن بُک انکی دسترس سے نکل کربیرونی ضلعوں کے ضلعی اکائونٹس آفس کے پاس پہنچ گئیں ۔ مروجہ پالیسی کے تحت ایسے پنشرز کی پنشن برانچ نیشنل بنک میں رقم کی شکل منتقل ہوکر پنشنر کو مل تو جاتی ہے لیکن ایک پنشنر بالکل لاعلم رہتا ہے کہ اسکی پنشن کی رقم کتنی ہے اوراس کے ساتھ اسکا میڈیکل الائونس وغیرہ کتنا ہے ؟پنشنرز کے پاس کوئی دستاویز ہی نہیں ہے جوانکی پنشن کی رقم بتاسکے۔
سرکاری ہسپتالوں میںاصل پنشن بُک کی کاپی جمع کروانا پڑتی تھی جب اس کا علاج معالجہ کسی سرکاری ہسپتال میں ہوتا تھا لیکن جب اصل ہی نہیں تونقل کہاں سے کوئی تصدیق کریگا لہٰذا یہ سنگین شکل پیدا کردی گئی ہے زیر قلم مضمون میں اس مسئلہ کا فوری حل نکالاجانا ضروری ہے یہ حل ممکنہ فنانس کے آفیسران کو نکالنا چاہئے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ جنا ب محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستا ن نے یہ غیرضروری ذمہ داریاں اپنے سرلے لی ہیں لہٰذا اب ہر شخص یہی سوچنے پر مجبور ہونے لگاہے کہ صرف اور صرف موصوف اعلیٰ ترین منصف کے حکم سے یہ مسئلہ حل ہوگاکیونکہ باقیوں کی کارکردگی کے نتائج حوصلہ شکن ہی ثابت ہورہے ہیں لہٰذا استدعا ہے کہ پنشنرز کو انکے سکونتی ضلعوں کے ضلعی اکائونٹس آفس سے سابقہ پالیسی کے تحت منسلک کیاجائے، کیونکہ پنشنرز بالخصوص عمر رسیدہ بزرگ ترین اس سٹیج پر کسی نہ کسی ایسی موذی مرض مثلاً ریڑھ کی ہڈی‘دل‘ گردہ‘ جگر وغیرہ میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اپنے مسئلے کے حل کیلئے ریٹائرمنٹ کے دیگر ضلعوں کے اکاؤنٹس آفس تک جا سکیں کیا ان کے لئے کوئی ہوٹل کے کمرے وہاں بک ہوتے ہیں؟ وہاں اکاؤنٹس آفس میں متعلقہ اہلکار یا آفیسر کہاں دستیاب ہوتا ہے کہ انکا مسئلہ ایک آدھ دن میں حل ہو جائے۔ باقی ’’ہذا من فضل ربی‘‘۔۔ کا ذکر نہ آئے تو مسئلہ حل نہ ہو گا۔ ہر پنشنر کو آگاہ کیا جائے اس کی پنشن کی رقم کتنی ہے میڈیکل الاؤنس کتنا ہے؟ کیونکہ جب اس کے قبضے میں ’’ اصل پنشن بُک‘‘ ہی نہیں ہے تو وہ کہاں سے معلوم کریگا۔ کیموٹیڈپنشن کی بحالی میں شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کئی کئی سالوں سے یہ کیس لٹکے چلے آ رہے ہیں کیا یہ بحال بھی ہوئی ہے یا نہیںاگر ہوئی ہے تو کتنی اور کتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی ہے کہیں آدھی رقم خورد برد تو نہیں ہو گئی۔
منصور احمد ترین سکنہ نیو شالیمار کالونی بوسن روڈ ملتان