ووٹربا شعور ہو گیا ہے
اپنی زندگی میں اس طرح آزادانہ الیکشن کبھی ہوتا ہوا نہیں دیکھا۔ اپنے اپنے حلقہ میں امیدوار اپنے لئے ووٹ مانگ ر ہے ہیں۔ اس گرمی کی شدت میں ووٹر نے امیدوار کو بڑی بڑی آرام دہ گاڑیاں چھوڑ کر سائیکل موٹروں پر کنوینسنگ کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ میری عمر 73سال ہے۔ اکیس سال کی عمر میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوا۔ 2005ء میں ساٹھ سال کی عمر میں SPکے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوا۔ 1964ء میں جب محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان فوجی جنرل کا الیکشن ہوا میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخان کا یونین کا صدر تھا۔ مشہور شاعر سید محسن نقوی شہید میری یونین میں نائب صدر تھا۔ ہم طلباء محترمہ فاطمہ جناح کے لئے کنوینسنگ کر رہے تھے۔ متحدہ پاکستان مشرقی‘ مغربی پاکستان کی سول انتظامیہ کھلے بندوں ایوب خان کی مکمل مدد کر رہے تھے۔ اس وقت ممبر کونسلر منتخب ہو کر صدر پاکستان کے لئے ووٹ ڈالتے تھے۔ ان کی باگ ڈور ضلع انتظامیہ یا ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ میں تھی۔ صدر ایوب خان اکثریت کے ساتھ جیت گئے۔ 1970ء کے انتخابات میں آزادی رائے اور مشرقی پاکستا ن میں آبادی کے لحاظ سے عددی برتری کی بنا پر مشرقی پاکستان الگ ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کی وجوہات تاریخ کا حصہ ہیں۔ جو المناک شرمناک اور درد ناک ہیں۔ مغربی پاکستان میں جو حکومت بنی پانچ سال اور اس کی کامیابی کے بعد ضیاء الحق کی فوجی بغاوت نے 1977ء میں اس کا تختہ الٹ دیا۔ بالآخر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق کی طویل فوجی آمریت اور اس کے سائے میں پلنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی دم تو ڑدیا۔ دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھٹو زرداری کا این آر او بھی اختتام پزیر ہوا۔ اس دوران ایک تیسری سیاسی پارٹی تحریک انصاف نے اپنے وجود کا احساس دلایا اور اس وقت چاروں صوبوں میں مرکزی سطح پر ان دونوں میں مقابلہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سابقہ برسر اقتدار پارٹی کھلم کھلا اعلیٰ عدلیہ اور فوج پر جانبداری کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اور صورت اس حال تک سنگین ہو گئی ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پاکستان اور فوج کے ترجمان اس جانبداری کی متواتر تردید کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی دبے لفظوں میں ن لیگ کے مؤقف کی حمایت کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف ان الزامات کی تردید کر رہی ہے ۔
پورے ملک میں پارٹی اور آزادانہ امیدار آزادانہ ماحول میں اپنے لئے یا اپنے امیدوار کے لئے کنوینسنگ کر رہے ہیں اور بڑے جوش خروش سے انتخاب لڑنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ دو تین افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ تو یہ دہشت گردی کا پرانا اور جاری سلسلہ ہے۔نگران حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار اور میسر وسائل کے تناسب پر اقدامات کر رہی ہے۔ الیکشن کمشن آزادانہ طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ الیکشن پرامن حالات میں ہونگے۔ یہ الگ بات ہے کہ نتائج کو متنازعہ بنا دیا جائے۔ نیت اور دل کا حال اﷲ ہی جانتا ہے۔ الیکشن کی گہما گہمی اور انتخاب لڑنے کا شوق اور جمہوریت کی آزادی کا جشن حکومت میں حصہ لینے کی خواہش امیدوار اور ان کے حمایتیوں کے چہروں سے عیاں ہے۔ چند روز قبل اپنے آبائی شہر ڈیرہ غازیخان جانے کا اتفاق ہوا وہاں شہر کی صوبائی سیٹ پرچھ سات امیدوار میدان میں مقابلہ کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ کسی امیدوار نے مایوسی یا جانبداری کا الزام عائد نہیں کیا ۔ تین صوبائی امیدواروں میں کانٹے دار مقابلہ ہے۔ سردار دوست محمد خان کھوسہ آزاد‘ محمد حنیف پتافی آزاد‘ علیم شاہ سابقہ ایم پی اے ن لیگ‘ جبکہ شیخ اسرار آزاد امیدوار ہیں۔ ان کی حمایت چوک چورہٹہ‘ بستی لاشاری‘ تونسہ روڈ‘ علاقہ اندرون شہر‘ جبکہ سردار دوست محمد خان مہتر کالونی‘ شہزاد کالونی بزدار کالونی وڈانی‘ مشرقی ساہٹہ شہر‘ علیم شاہ سابق ایم پی اے کا جنوبی حصہ گدائی‘ پل ڈاٹ‘ شیخ اسرار سابق چیئرمین مارکیٹ کمیٹی‘ ڈپٹی میر سابقہ میونسپل کارپوریشن شہر کا مغربی حصہ‘ صدیق آباد‘ شمس آباد‘ عبد اﷲ کالونی‘ شیخ عثمان فاروق جماعت اسلامی ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب امیدوار متحدہ مجلس عمل اور ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ امیدوار تحریک انصاف اس حلقہ کے نظریاتی اور جماعتی ووٹ لیں گے۔
بہرحال اس الیکشن نے پورے پاکستان میں امیدوار کی بجائے ووٹر کو اتنا باشعور اور مضبوط کر دیا ہے کہ اب ووٹر کو ورغلانا بہلانا بڑا مشکل کام ہو گیا ہے۔ ووٹر کو ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا عمل ہو چکا ہے۔ ہوتا رہے گا۔ اور سیاست میں سیاست دان رہیں گے۔ سیاسی فصلی بٹیرے لگڑ بگڑ یقینی طور پر بھاگ جائیں گے۔ ووٹر کا یہ کردار خوش آئند ہے۔