ووٹ صرف پرچی نہیں
لفظ سیاست کے نام سے گھن آنے لگی ہے اس کے باوجود انسان سیاست کرنے سے باز آ رہا ہے نہ سیاست انسان کا پیچھا چھوڑ رہی ہے۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب بالکل حساس اور انسانی دل لرزا دینے والے واقعات پر بھی جم کر سیاست کی جاتی ہے آخر ایسا کیوں ہے اگر ایک جملے میں جواب دینا ہو تو کہا جائے گا یہ سب انسانوں کی کھلی گمراہی کا نتیجہ ہے۔ دیگر تمام شعبہ ہائے حیات کی طرح سیاسی امور میں اﷲ نے انسانوں کی بھرپور رہنمائی فرمائی اس سے ہٹ کر جو بھی کام کریں گے وہ ہمیں نقصان دیں گے اس لئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہو چنگیزی
دین اور سیاست الگ موضوع نہیںہے ہماری پوری زندگی خالق کائنات کے وضع کردہ اصول و قوانین کی محتاج ہے۔ پاکستان کو اس طرف توجہ دلانے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
فی الحال پاکستان سیاست کی جو صورتحال ہے۔
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو اسلام آباد مسکراتا ہے۔
یہ بہت معنی خیز ہے کوئی شہر جلتا ہے اسلام آباد مسکراتا ہے۔ کا مطلب ہے ہر چھوٹے بڑے واقعات ہمارے سیاست دانوں کو اسلام آباد پہنچانے اور تخت و تاج پہنچانے والا ایشو نظر آتے ہیں اس لئے وہ چنگاری کو شعلہ کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں خواہ ملک کا کتنا عوام کا نقصان ہو اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اسلام آباد کے تخت و تاج حاصل ہو جائیں ان کی جو مسکراہٹ نکلتی ہے وہ کسی کے دل کو چھلنی کرنے سے کم نہیں عجب تماشا ہے جو سیاست کے نام پر ہو رہا ہے سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال بدلے کیسے۔
اس سلسلے میں کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ جو لوگ سیاست کو صرف تخت و تاج کا ذریعہ سمجھتے ہیں انہیںہم پہلی فرصت میں دل و دماغ سے باہر نکال کر پیر کی جوتی تلے کچل دیں اور صرف ایسے لوگوں کو ووٹ دیں جو حلقہ اور ملک کے لئے زمین پر کام کرتے ہیں چور لٹیرے نیب زدہ قبضہ گروپوں جاگیردارں سے بچنا ہے۔
ان کو ووٹ دنیا ہے جن کا اپنے ملک اور معاشرے میں نمایاں کام ہو جو مزید کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں ان کا اخلاق کردار فاروق بندیال جیسا نہ ہو وہ ملک سے پیار کرتے ہوں قرضے نہ معاف کرائے ہوں۔ جو لوگ اس معیار کے نہ ہوں ان کے منہ پر دے مارنے کا حوصلہ ہمیں پیدا کرنا ہو گا۔ خواہ وہ بہت مالدار اور طاقت ور کیوں نہ ہو۔ دوسرا اہم کام وہ یہ ہے کہ جن کو ووٹ دے کر ہم کامیاب کرتے ہیں ان پر اجتماعی پکڑ مضبوط کرنی ہے اس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دیں۔ بدقسمتی سے ہمارا حال یہ ہوتا ہے ووٹ دیتے دلاتے وقت بہت ساری مصلحتیں یاد آتی ہیں۔ سولنگ‘ نالیاں ‘بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے آتے ہیں اور وہ لوگ کامیاب ہو کر آپ کو دکھاتے ہیں ٹھینگا۔ اب ایسا نہ ہو ہمیں ٹھوس تیاری کرنی ہے اور اجتماعی مفاد کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہے ویسے کچھ عوام کو شعور آیا بھی ہے کیوں کہ کچھ سیاست دان اپنے حلقے میں چار پانچ سال بعدگئے تو لوگوں نے ان کی خوب باز پرس کی ۔ ہمیں عوام کو بتانا ہو گا ان کے جھانسے میں نہ آئیں مل کر ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں اگر ہم باشندگان وطن پکا ارادہ کر لیں کہ ہم نے ملک کو تباہ و برباد نہیں ہونے دینا تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کے لئے شرط ہے ہم مخلص ہوں وطن سے محبت ہو اور ملک کے لئے جان و مال ‘وقت ‘توانائی ‘قربانی کر دینے کا جذبہ پیدا کر لیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس کے لئے ہم سب کو مل جل کر ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا ہو گا جو ملک میں‘ معاشرے میں نفرت پھیلا کر تخت و تاج حاصل کر کے ملک کی دولت وسائل لوٹنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ایسے لوگ ملک قوم کے رہنما نہیں رہزن ہیں جو لوٹنا چاہتے ہیں بلکہ اب وقت آ گیا ہے ایسے لوگوں کو جیل میں ڈالا جائے اس کے لئے تمام باشندگان وطن کو بلا تفریق مذہب و ملت ‘ ذات برادری‘ انفرادی فائدے کو چھوڑ کر متحد ہو کر ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا اور ہم انشاء اﷲ کامیاب ہوں گے۔