بلاول بھٹو کا سیاسی شعوراور مخالفین کا منفی ردعمل
ملک میں 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت اپنی الیکشن کمپیئن کو بھرپور انداز میں آگے بڑھارہی ہیں۔پورے ملک میں اس وقت سیاسی جلسے جلوسوں کا زوروشور اپنے عروج پر ہے۔ پیپلزپارٹی جوایک وقت میں پورے پاکستان کی عوامی جماعت ہوا کرتی تھی۔پاکستان میں جتنا بھی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں وہ ایک صوبے یاکچھ دوسرے علاقوں تک محدود رہی ہیں۔لیکن پی پی پی وہ واحد جماعت ہوا کرتی تھی جو ایک وقت میں چاروں صوبوں تک پھیلی ہوئی تھی۔میں ذاتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریے کا احترام کرتے ہوئے مخالفت پہ قائم ہوں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی الیکشن کمپین کاآغاز کراچی سے کیا۔ پیپلزپارٹی کی انتخابی ریلی کراچی میں لیاری سے شروع ہوئی۔ اس ریلی کی قیادت خود پی پی چئیر مین نے سنھبالی۔پی پی کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے لیاری میں پی پی کی ریلی پہ پتھرائوکیا گیا۔اس پتھرئو کو میڈیا نے اس قدر کوریج دیتے ہوئے بریکنگ نیوز کے طور پرپیش کیاکہ شاید پی پی پی پہ کوئی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور سیاست کی دنیا سے پی پی پی ختم ہوگئی ہو۔پاکستانی میڈیا نے بلاول کے استقبال کواس قدر کوریج نہیں دی جس طریقے سے پتھرائوکو جوڑ توڑ کرکے پیش کیا گیا۔بلاول بھٹو نے اپنی الیکشن کمپین کا بیانیہ ماں اور نانے کے مشن کوپورا کرنے آیا ہوں کواپنایا۔اور اسی ایجنڈے اور منشور سے ہی ہر جگہ اپنی پارٹی کیلیے ووٹ مانگتے نظر آئے۔
پی پی کاحصہ رہنے والے سابق وزیراعلی کے پی کے تحریک انصاف کے امیدوار پرویزخٹک کی طرف سے یہ بیان کہ میں جس گھر پہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا دیکھتا ہوں وہ گھرمجھے کسی طوائف کا گھر لگتا ہے۔بہت افسوس کی بات ہے خٹک صاحب! کل تک جس جماعت کیلے مرمٹنے کا کہتے تھے آج اسی جماعت کیلیے اس قسم کے لفاظ استعمال کرناکیسے گوارا کیا ؟آپ خٹک صاحب! اپنی الیکشن کمپین ضرور کیجیے مگر اس طرح کسی بھی سیاسی پارٹی کے بارے میں بات کرنا کسی بھی سیاست دان کو زیب نہیں دیتا۔پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر سیاستدان سابق سپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق نے تقریر کرتے ہوئے اپنے ایک جلسے میں کہا کہ جو بھی پنجابی ، تحریک انصاف کو ووٹ دے گا وہ بے غیرت ہے۔
ایسے الفاظ اتنے بڑے سیاست دان کے منہ سے سن کربہت دُکھ ہوتا ہے۔ ایاز صادق آپ ن لیگ کو صرف ایک صوبے کی جماعت سمجھتے ہیں یا ایک صوبے کی بنانا چاہتے ہیں۔اس طرح کی بات کر کے آپ دوسرے صوبوں کے عوام کو کیا میسج دینا چاہتے ہیں۔سر! آپ اتنے بڑے سیاست دان ہوکر کیوں قومی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں؟کیوں آپ ووٹر کوبے غیرت اور باغیرت کے فتوے دے رہے ہیں؟ آپ کل کوکے پی کے میں جاکر الیکشن کمپین میںلوگوں سے پھر کس بنیادپہ ووٹ مانگیں گے؟ وہاں تو پنجابی نہیں ہیں۔ جن کوآپ گالی دے کرووٹ دینے کاکہیں گے ۔افسوس کہ اپنی ہی پارٹی کونقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست کا رخ ایک غیر مہذب گفتگو کی طرف موڑا جارہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص نواز شریف کا استقبال کرنے ائر پورٹ جائے گا وہ گدھاہوگا۔عمران خان صاحب آپکو پتہ ہونا چاہئے آپ کسی عام سی یونین کونسل کے چیئرمین یا ممبر نہیں بلکہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت کے چئیرمین ہیں اور وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوارہیں۔خان صاحب کی طرف سے ان الفاظ کی جتنابھی مذمت کی جائے کم ہے۔سیاسی اورنظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر اتنے بڑے سیاست دان کی طرف سے اس قسم کے الفاظ حیران کن اورپریشان کن ہیں۔خان صاحب! آپکو تو ووٹراور عوام کادل جیتنا ہے لیکن جب آپ عوام کوگدھے کہنا شروع کردیں گے تو سوچیے عوام کیونکرآپ پہ اعتماد کا کااظہار کریں گے؟
مسلم لیگ ن کے راناثناء اللہ جن کوخاص طور پر گالم گلوچ کی سیاست کا ٹھیکدار سمجھا جاتاہے انہوں نے ایک ٹی وی شومیں اپنے قائدکی محبت میں مبتلاء ہوتے ہوئے یہاں تک بات کردی کہ توبہ نعوذ باللہ قائد کا استقبال حج سے بھی بڑھ کر ہے۔بہت دُکھ ہو ا سن کر۔اس بات کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے راناء صاحب قائد سے محبت آپکاحق ہے مگر اس طرح کی بات کرکے آپ نے پاکستانی عوام اورمذہبی شخصیات کو بہت دُکھ پہنچایا ہے۔
حالیہ پیش آنے والی یہ تو چند مثالیںہیں۔ اگر شروع سے مکمل اس گالم گلوچ کو کولکھنا شروع کردوں تو شاید بات ختم ہی نہ ہونے پائے۔ان سب کے برعکس بلاول بھٹوزرداری جس کو مختلف سیاست دانوں کی طرف سے طنزیہ لہجے میںکہیںبھتیجا کہا گیا تو کہیںبھانجا۔کسی سیاست دان نے انہیں سیاسی نابالغ کہا تو کسی نے ابھی سیاست کی پہلی سیڑھی چڑھنے والا بچہ کہا۔ان سب باتوں کے باوجود بلاول بھٹونے اپنی الیکشن کمپیئن کی مکمل باگ ڈور خود سنبھالی۔الیکشن کمپیئن جو کراچی سے شروع ہوئی کے پی کے تک پہنچی اُس میں ہرروز مختلف جگہوں پہ جلسے کیے گئے۔اپنی پارٹی کیلیے ووٹ مانگے گئے بلاول کی طرف سے مخالفین پرتنقید ضرورکی گئی مگر کسی بھی جلسے میں کہیں پہ بھی بلاول کے طرف سے ایسے الفاظ سننے کونہیں ملے جس سے مخالف سیاست دان یا پھر ووٹر کی تضحیک کی گئی ہو۔بلاول نے اب تک سب سیاست دانوں سے بڑھ کر ایک میچور سیاست دان کی طرح الیکشن کمپین چلائی ہے۔
میری درخواست ہے تمام سیاست دانوں سے خدارا !اپنے آپ پراور اپنے عوام پر پرترس کھاتے ہوئے اس قسم کی گالم گلوچ کی سیاست سے پرہیز کی جائے۔