’’سرحدوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘
افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات شروع دن سے اچھے نہیں رہے۔ اس کی بنیادی وجہ ڈیورنڈلائن ہے۔ ڈیورنڈلائن کا 1500میل لمبا بارڈر جو کہ برطانوی دور کے وقت سرمورتمرڈیورنڈ اور امیر افغانستان عبدالرحمان خان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یہی لائن اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں کا بارڈر ہے۔ جو کہ افغانستان کو پسند نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے اپنے قیام کے بعد اقوام متحدہ میں شمولیت کی درخواست دی تو افغانستان نے اس کی مخالفت کی۔ یہ دونوں ممالک اسلامی جمہوریہ ہیں۔ اور غیر یورپی ممالک نیٹو کے اتحادی ہیں اور سارک کے ممبرہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات کوئی مثالی نہیں رہے۔ سابقہ افغان صدر حامد کرزئی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ افغان اور پاکستانی جدانہ ہونے والے بھائی ہیں لیکن اس کوحقیقت کے روپ میں کیسے ڈھالا جائے؟
اس کو بڑے وسیع تناظر میں دیکھناہوگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ افغانستان اس وقت ایک مقبوضہ ملک ہے۔ اس کا اپنا بیانیہ پس پشت چلا جاتاہے۔ اس پر قابض ملک کا بیانیہ افغانستان کا بیانیہ نہیں ہوسکتا۔ بے شک وہاں کاحکمران ایک افغان کیوں نہ ہو۔ آدھے سے زیادہ افغان ایران اور پاکستان میں ہیں۔ وہاں تو صرف متحارب گروپ اور چند افغا ن موجود ہیں۔ جو حکومت سازی کے لیے ہمیشہ برسرپیکار رہتے ہیں۔ افغانستان بھی پاکستان کی طرح مختلف قوموں کا مجموعہ ہے۔ پشتون، تاجک اور پرشیئن افغان۔ اس وقت وہاں امریکہ اور انڈیا کے ہم نوا شمالی اتحاد برسراقتدار ہے۔ پشتون اور پشتون طالبان ایک متحارب گروپ کی صورت میں حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ وہ اس حکومت کو افغان حکومت تسلیم ہی نہیں کرتے۔
افغانستان ایک تاریخی اہمیت کا حامل ملک رہا ہے۔ کہ جب ذرائع نقل و حمل اس طرح میسر نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ متحدہ ہندوستان سے وسطی ایشیا تک افغانستان ہی رابطہ تھا۔ بلکہ آج بھی وسطی ایشیائی ریاستوں کو جوڑنے اور بحرکیسپیئن سے تیل کی پائپ لائن بچھانے کے حوالے سے افغانستان اور پاکستان دونوں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کو سٹرٹیجک اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں دونوں ممالک کے تعلقات کی ناہمواری و دشواری میں کچھ بیرونی عناصر بالخصوص انڈیا کا ہاتھ ہے۔ یعنی اس کو اگر انڈیا کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین والی پالیسی کے تناظر میں دیکھیں تو معاملے کی سنگینی کا شدت سے احساس ہوتاہے۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ ان تعلقات کی اہمیت کو سمجھے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے میں اپنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ افغان جہاد سے لے کر افغان طالبان، شمالی اتحاد اور پاکستانی طالبان تک دونوں ممالک میں خلیج بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔
پاکستان اورافغانستان دونوں ممالک کی عوام کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور تجارتی بندھن ہے جو کہ ان کو قریب لانے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا۔ افغانستان روس جنگ میں پاکستان نے 50لاکھ سے زیادہ افغان بھائیوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ کیا یہ کم خدمت ہے؟ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا رہا ہے۔ اور بے انتہا دہشت گردی کا سامنا کیا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ بقول علامہ اقبال
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
لیکن بدقسمتی بداعتمادی کی فضا روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ انڈیا اور امریکہ وہاں تیل پر جلتی کا کا م سر انجام دے رہے ہیں۔ بیچ میں نقصان غریب عوام کا ہو رہا ہے۔ جو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ امریکہ اور انڈیا کو وہاں سے نکلنا ہوگا۔ تمام افغانوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا چاہے وہ طالبان ہیں یا پھر شمالی اتحاد۔ پاکستان اور افغان تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں۔ دوبھائیوں میں بھی لڑائی ہو جایا کرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مرنے مارنے پر تل جانا چاہیے۔ تمام افغان چاہے وہ متحارب گروپ ہیں یا امن پسند آپس کے تعلقات کو معمول پر لے آئیں۔ بہت ہو چکی۔ لبنان میں بھی متحارب گروپ برسرپیکار تھے۔ آپس میں شیر و شکر ہونے سے اب کتنے خوش ہیں۔ وہاں تو مذہبی اور مسلکی مسائل بھی تھے۔ قومیں جب امن کی راہ پر چل پڑیں تو بھائی چارہ، مساوات اورترقی ان کے قدم چومتی ہے۔ برطانیہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہاں کیا نہیں ہوا تھا؟ کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان کتنے اختلاف تھے۔ کہاں گئے وہ اختلاف؟ شمالی آئر لینڈ کا ایشو دنیاکے بچے بچے کو معلوم ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب برطانیہ میں بم دھماکا نہ ہو۔ کہاں گئے وہ دھماکے؟ اب وہ کیوں ایک ساتھ مر جی رہے ہیں؟ کسی ملک نے ثالثی کا کردار ادا نہیں کیا۔ صرف اورصرف وہاں کی عوام بیدار ہوئی ہے۔ جس کوسول سوسائٹی کہتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھے ہیں۔ آپس کے بڑے سے بڑے اختلافات کو کک آؤٹ کیا۔ حیوانیت کو شکست دی، انسانیت کو آبرو بخشی۔ اپنے بچوں کا مستقبل روشن کردیا۔ کیاافغان لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ صلح جوئی تو مسلم کی میراث ہے۔ یہ اپنی میراث بے اعتناعی کیوں برت رہے ہیں۔ یہ کیسے طالبان ہیں؟ یہ کیسا شمالی اتحاد ہے؟ یہ کیسے پشتون ہیں؟ خدا سب کا ایک، نبیؐ سب کے ایک، کلمہ سب کا ایک، تو پھر اختلاف کس بات کا؟
صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا
ہرات و کابل و غزنی کا سبزہ نورس
دشمن تو چاہتا ہے کہ یہ مسلم ہمیشہ باہم دست و گریباں رہیں۔ ورنہ اسلام پوری دنیا پر غالب آ جائیگا۔ کیا افغان بھی یہی چاہتے ہیں کہ اسلام غالب نہ آئے؟ ایسا ہر گز نہیں۔ افغان نہیں دیکھتے کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ ان کی وجہ سے ان کے اردگرد موجود مسلم ممالک کتنے پریشان ہیں۔ افغانستان میں امن نہ ہونے کی وجہ سے سب ممالک کی ٹریڈ متاثر ہورہی ہے۔ نادیدہ قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ وہ قوتیں اس لیے ہمیں لڑوارہی ہیں کہ کہیں وہ اس ٹریڈ سے محروم نہ ہو جائیں۔ آپس کے اختلاف بھلا کر اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات استوار کریں۔ ذرا یہ تو دیکھیں سرحدوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ویزہ فری سروس کا اجرائ کریں۔ ہر طبقہ فکر کے لوگوں، اساتذہ، طلبا، تاجر، وکلاء وغیرہ کے وفود ایک دوسرے سے ملیں۔ غلط فہمیاں دور ہوں۔ پاکستان اورافغانستان میں دوبارہ اعتماد کی فضا بحال ہو۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مٹھی بھر لوگ ہی باہمی اختلاف کا ذریعہ بنتے ہیں، وہ اپنے آلہ کاروں کی انگلیوں پر ناچتے ہیں اور قوموں کا حال اور مستقبل تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔