الیکشن اس قدر قریب آگیا ہے کہ اب الگ الگ موضوعات پر لکھنے سے ہر پہلو پر بات نہیں ہو سکتی چنانچہ با مجبوری اب رننگ کمنٹری کا سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔
پہلے تو باران رحمت پر اللہ کا شکر گزار ہوں، موسم کی حدت کافور ہو چکی ۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں اس قدر بارش ہو ئی کہ سلیکش کمیشن، (معاف فرمایئے گا، الیکشن کمیشن)کے کمروں میں دو دو فٹ پانی بھر گیا۔ کہتے ہیں کہ سارا فرنیچر تباہ ہو گیا ور الیکشن کے سلسلے میں جو مشینری لگائی گئی تھی وہ غارت ہو گئی۔ خدا کرے ان خبروں میںکوئی صداقت نہ ہو۔ اس تباہی کی وجہ سے ا لیکشن آگے نہ چلا جائے۔ الیکشن کو ملتوی ہونے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے۔ اس ضمن میں دہشت گرد بے حد تعاون کر رہے ہیں مگر الیکشن اس قدر پختہ جاں ہے کہ اس پر ڈیڑھ دو سو لاشوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ویسے امریکہ برطانیہ، سعودی عرب نے الیکشن کو ہلہ شیری دی، نہیں دی تو بھارت نے نہیں دی جہاں کی حزب اختلاف کانگریس نے مودی سے خاموشی توڑنے کا مطالبہ داغ دیا ہے تاکہ اہل بھارت کو پتہ چلے کہ مودی سرکار پاکستان میں کس پارٹی کے ساتھ ہے۔
پاکستان میں ہر الیکشن پر انگلیاں اٹھتی ہیں ۔حالیہ الیکشن میںکچھ زیادہ ہی اٹھ رہی ہیں، اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے بھی واضح طور پر آرمی چیف سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو الیکشن میں مداخلت سے روکیں،فوج کی طرف سے جب پہلا بیان آ ٓیا تھا کہ ا سے الیکشن میں نہ گھسیٹا جائے تو یہ بیان مجھے اچھا لگا تھا۔ میں اپنی پیاری فوج کو متنازع ہوتے برداشت نہیں کر سکتا مگر فوج ہی کے ترجمان نے جب ایک میڈیا بریفنگ سے خطاب کیاتو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ الیکشن کے معاملات پر بولنا الیکشن کمشن کا حق اور اسی کی ذمے داری ہے، فوج کو بریفنگ نہیں کرنا چاہئے تھی مگر یہ بریفنگ ہوئی اور فوج کو ہر سوال کرنے والے نے بے نقط سنائیں، مجھے اس پر دلی رنج ہوا ۔اب بھی اگر فوج الیکشن معاملات پر خود نہ بولے اور معزز جج صاحب کا فیصلہ الیکشن کمشن کو تبصرے اور فیصلے کے لئے بھیج دے تو وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ ڈُلھے بیرا ںدا کچھ نہیں وگڑیا، ابھی موقع ہے کہ فوج اپنی عزت بچالے کیونکہ اسے ایک بیرونی دشمن بلکہ دشمنوں سے پالا پڑا ہے جن سے لڑنے کے لئے پوری قوم کی تائید کی اسے سخت ضرورت ہے ، پینسٹھ میں قوم اپنی فوج کی پشت پر تھی تو ہم نے اپنا دفاع کر لیا ، اکہتر میں قوم تقسیم تھی، ہم جنگ کی بازی اور ملک کی بازی دونوں ہار گئے۔اب دہشت گردی کی جنگ اگر بڑی حد تک جیتی ہے تو قوم کے تعاون اور نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے کی وجہ سے۔ الیکشن کے جھنجھٹ میں سیاستدان ہی پڑیں اورا سے حل کریں یا نہ کریں ، یہ ان کی ذمے داری اور صوابدید ہے، جو بوئیں گے ، وہی کاٹیں گے۔ اس موضوع پر میں اتناہی کافی سمجھتا ہوں۔
اب آیئے الیکشن مہم کی طرف تو دہشتگردی کی وجہ سے اسے شدید دھچکا لگا ہے اور کچھ پری پول رگنگ کے پروپیگنڈے نے الیکشن لڑنے والوں کو مایوس کر چھوڑا ہے، نیم دلی سے جلسے کرنے سے نا امیدی بڑھتی چلی جائے گی ، آج تو ایک ا خبار میں عمران خان کی مایوسی والا بیان نظر آیا ہے، ا سلئے کہ وہ جس پٹی میں جلسے کر رہے ہیں، وہاں انہیں سننے کے لئے کوئی گھروں سے باہر نہیں نکلا۔دوسری طرف بلاول کے اس بیان سے مایوسی ہی جھلکتی ہے کہ ہمیں ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے ، اس بات کو شہباز شریف نے دوسرے لفظوں میں کہا تھا کہ وہ نئے معاہدہ عمرانی کے لئے تیار ہیں،بلاول نے دو روز پیشتر یہ بھی کہا تھا کہ ا گر مخلوط حکومت بنتی ہے تو زرداری بہترین وزیر اعظم ہوں گے اس لئے کہ انہیں اتحادی حکومت چلانے کا تجربہ حاصل ہے اور وہ سب کو ساتھ لے کرچلنے کے فن سے آشنا ہیں،عمران نے مخلوط حکومت بنانے کے نظریئے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ مگر پیارے قارئین! سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ سینٹ چیئرمین کے الیکشن میں پیپلز پارٹی ا ور تحریک انصاف جس طرح شیرو شکر ہو گئی تھیں۔ اس طرح تو شیرا ور بکری بھی ایک گھاٹ سے پانی پینے کے لئے جمع نہیں ہوتے۔الیکشن کے بعد کے تقاضے شاید انہیں یا دوسری پارٹیوں کو شیر وشکر ہونے پر مجبور کر دیں۔
سڑکوں اور گلیوں میں جلوس نکلتے ہیں تو گرم بازاری دیکھنے میں آتی ہے، ہر جماعت کے کارکن کئی مقامات پر ایک دوسرے سے الجھے ہیں اور ایک دوسرے کو زخمی بھی کیا گیا۔
افواہوں کا بھی جھکڑ چل رہا ہے، اکثر لوگ نواز شریف کی قید وبند پر خوش ہیں اور عمران خان تو مستقبل کے فیصلے بھی سنا رہے ہیں کہ اڈیالہ جیل شہباز شریف کی بھی منتظر ہے، اس سے پہلے بھی عمران کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ہی حتمی فیصلہ ثابت ہوتے رہے ، عمران کے پاس علم غیب کی طاقت بھی ہے یا شیخ رشید انہیں پٹیاں پڑھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ شیخ رشید کھلے عام فوج ا ور عدلیہ کے ترجمان ہیں ،انہیں کوئی لگام دینے والا نہیں۔
نواز شریف کے مقدموں میں نئے موڑ آ رہے ہیں ، کیا زمانہ تھا کہ انہیں دن میں تین مرتبہ پیشیاں بھگتنا پڑتی تھیں اور کیا و قت ا ٓیا ہے کہ اب ان کے مقدموں کے فیصلے ہوتے ہیں اور وہ اڈیالہ جیل میں ہی پڑے رہتے ہیں ،وفاقی کابینہ کا نیا فیصلہ سامنے آیا ہے کہ اب نواز شریف کا مقدمہ کھلی عدالت میں سنا جائے گا، اسی کابینہ نے پہلے فیصلہ سنایاتھا کہ اڈیالہ جیل ہی میںعدالت لگے گی۔ نواز شریف کے بارے میں یہ تو راز کھل گیا کہ الیکشن ہونے تک وہ جیل ہی میں رہیں گے، ان کی ضمانت کی سماعت جولائی کے آخر تک مؤخر کر دی گئی۔ اب خدا ہی جانے کہ ان بدلتے فیصلوںمیں کیا حکمت ہے۔ نواز شریف کو کتنا نقصان ہے اور قوم ان کے جیل میں رہنے سے کتنے بڑے فائدے میں رہتی ہے۔
آزاد امید واروں کے وارے نیارے ہیں ، جو بھی جیتا ، وہ ان سے پیسے کمائیں گے اور اس کی حکومت کا حصہ بن جائیں گے، یہ بھی وقت آنا تھا کہ ہمار امیڈیا آزاد امید واروں کی لوٹا گردی کی حمائت کر رہا ہے،یقین نہ آئے تو کل رات کے کسی ٹی وی چینل کا ٹاک شو پھر سے سن لیجئے۔جب الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا اور صرف پرنٹ میڈیا ہی تھا تو لوٹا گردی کے خلاف وسیع پیمانے پر نفرت پیدا کر دی گئی تھی۔اب پتہ نہیںکیوں الیکٹرانک میڈیا کی اخلاقیات میں انقلابی تبدیلی واقع ہو گئی۔
میں آج کی رننگ کمنٹری ختم کرنے سے پہلے فوج سے پھر یہ التماس کروں گا کہ وہ ری ایکٹ نہ کرے ورنہ فضا مزید مسموم ہو گی۔ مجھے موہوم سی امید تو ہے کہ شاید میرامشورہ مان لیا جائے۔
تمام اضلاع میں ہیلتھ انسپکٹروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے اس سے الیکشن کو شفاف بنانا مقصود ہے یا چام کے دام چلانے کا مظاہر؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024