اس وقت ملک میں عجیب کھچڑی پک رہی ہے۔ حالات غیر محسوس طریقے سے ایک مخصوص سمت دھکیلے جا رہے ہیں۔ اکثریت کو اس کا احساس نہیں مگر جن لوگوں پر صورت حال واضح ہے وہ بھی خاموش ہیں۔ یقینا ہم جمہوری ملک ہیں اور پچھلے دس پندرہ سال سے جمہوریت میں تسلسل بھی دیکھنے میں آ رہا ہے مگر ہماری حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتے فاصلے تشویش ناک ہیں۔ دراصل یہ عالمی قوتوں کی پیدا کردہ چپقلش ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف زہر بھرا جا رہا ہے جو پاکستان کے لئے سخت نقصان دہ ہو گا۔ اگر آپ اس صورت حال کو سمجھنا چاہیں تو صرف دو تین ملکوں کی حالت دیکھ لیں۔ عراق دنیا میں ایک اچھا کھاتا پیتا ملک تھا، تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے خاصا خوشحال تھا مگر زور آوروں کو مسلمانوں کا مضبوط ہونا کب گوارا ہوتا ہے اس لئے پہلے سنی شیعہ تنازعے کو ہوا دے کر دو مسلمان ملکوں ایران، عراق کو لڑایا گیا پھر بھی مقاصد پورے نہ ہوئے تو کویت اور عراق کے درمیان جنگ کرائی گئی اور دونوں کو تھپکی دی گئی کہ آگے بڑھو۔ نتیجہ کویت جس کی کرنسی دنیا میں سب سے مضبوط تھی کافی حد تک نیچے گر گئی۔ عراق پھر بھی مکمل طور پر ختم نہ ہوا تو عراق کے اندر سے صدام حسین کے خلاف مخالفت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لوگوں کو آزادی کے نام پر بغاوت پر اُکسایا گیا پھر کیا ہوا؟ اتنی گولہ باری ہوئی کہ آزادی مانگنے والوں کے لئے سانس لینا دشوار ہو گیا۔ اب وہ ایک کھنڈر نما ملک ہے جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ مختلف گروہ آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔ لیبیا کے معمر قذافی کے دور میں لیبیا دنیا میں ایک خوشحال ملک گنا جاتا تھا۔ معمر قذافی کو زیر کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے آزمائے گئے مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ پھر لیبیا کے لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے گئے۔ انہیں بغاوت پر آمادہ کیا گیا۔ اب لیبیا کا حال دیکھیں، فائدہ اور نقصان کا حساب لگائیں۔ اس ساری جدوجہد میں لیبیا کے عوام کو صرف نقصان ہوا، جانی بھی اور مالی بھی اور اس کے ساتھ ملکی استحکام شدید متاثر ہوا۔ حکومتی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔ شام میں بشار الاسد کے خلاف لوگوں کا ذہن بنایا گیا پھر موجودہ حالات پیدا ہوئے۔ افغانستان کا حال ہم سب کے سامنے ہے۔ بدقسمتی سے ہم چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہیں۔ پاکستان تمام مسلمان ممالک میں اپنی افرادی قوت، اسلحے، فوج اور ایٹم بم کی وجہ سے خاص حیثیت رکھتا ہے۔ اسے کمزور کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً حربے استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ آج کل یہاں بھی خاص و عام کو فوج کے خلاف کرنے کی تبلیغ کی جا رہی ہے۔ دشمن ہمیں آپس میں لڑا کر ہماری فوجی قوت کم کر کے نہ صرف ہمارے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے بلکہ سی پیک کے حوالے سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کھل کر میڈیا پر پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کا اعلان کرتا رہتا ہے۔ ایسے میںا گر ہم نے اپنی فوج کے خلاف محاذ آرائی شروع کر لی تو یاد رکھیں ہماری حیثیت بھی خدانخواستہ عراق اور شام جیسی ہو جائے گی۔ ایسی حالت ہو جائے تو سفر کھنڈر کی طرف شروع ہو جاتا ہے اور صدیاں لگ جاتی ہیں دوبارہ یکجا ہونے میں۔ ورنہ تو شناخت خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے تو پھر کبھی نہیں ملتی اس لئے اس پروپیگنڈے کا حصہ بننے کی بجائے اپنی فوج کا احترام کریں۔ اس کا مورال بلند کریں۔ جب تک عوام کی دعائیں اور جذبے فوج کے ہمراہ نہ ہوں کوئی بھی فوج کھل کر دشمن سے نہیں لڑ سکتی۔ یاد رکھئے فوج یکجہتی کی علامت ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح گھر کے اندر بیٹھ کر کرنی ہے۔ قومیں باہر کے دشمن کا مقابلہ کر لیتی ہیں لیکن اگر وار اندر سے ہو تو ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ ابھی تک حالیہ زمانے میں جس قوم کو بھی پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا اس کو اندر سے کمزور کر کے آپس میں لڑایا گیا۔ اس وقت ہمیں ایک باشعور قوم کا کردار ادا کرنا ہے اور عالمی قوتوں کی سازش کو ناکام کرنا ہے۔ وہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور آپس میں مشاورت کے ماحول کو پروان چڑھائیں۔
الیکشن کے دن بہت قریب ہیں۔ اس وقت تمام پارٹی رہنمائوں میں صرف شہباز شریف وہ واحد لیڈر ہیں جو افہام و تفہیم کے ذریعے کارِ سرکار سرانجام دینے کا وژن رکھتے ہیں۔ ملکی سلامتی ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔ ملک کو نقصان پہنچانے والے ان کے اس فعل پر تنقید کرتے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شہباز شریف اس وقت مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں۔ ان کا جذبہ، وژن اور ان کا کام سب پر عیاں ہے۔ موجودہ سنگین حالات میں کسی ناتجربہ کار جذباتی یا اناڑی شخص کو حکومت دینا بہت غیر موزوں ہو گا۔ اس طرح شہباز شریف واحد رہنما ہیں جو معاملات کا شعور رکھتے ہیں۔ وسیع انتظامی تجربہ ان کی جیب میں ہے اس لئے ان کی رہنمائی کی ملک کو ضرورت ہے جو فوج کے ساتھ مل کر ملک کو آزمائشوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ خدا کرے ہم ان انتخابات کے بعد ترقی کی نئی منزل کی طرف سفر شروع کر سکیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024