کچھ دنوں بعد الیکشن 2018 ہونے جارہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں بھرپورطریقے سے اپنے جلسے منعقد کررہی ہیں۔ عوام کو بڑے بڑے ’’خواب‘‘ دکھائے جارہے ہیں۔ عوام کیلئے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے بلند بانگ دعوے اور وعدے کرنے میں سبھی جماعتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک بھی قومی نظرتی جماعت کہلانے کی حق دار نہیں ہے۔ سب کے جداگانہ منشور ہیں۔ جن کا ہمیشہ الیکشن سے قبل زبانی کلامی پرچار تو کیا جاتا ہے مگر الیکشن جیتنے کے بعد منشور کو ردی کی ٹوکری میںپھینک دیا جاتا ہے اور لوٹ کھسوٹ شروع کردی جاتی ہے۔ ایک بھی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو یہ کہے کہ بانیان پاکستان نے جن عظیم مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ ملک حاصل کیا تھا اور بدقسمتی سے آج 70 سال بعد بھی وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکے اور ہم انہیں پورا کریں گے۔ بانیان پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال کے فرمودات و تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے تمام پارٹیاں اپنے اپنے ’’قائدین‘‘ کی خواہشات کی پیروی میں مصروف ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہی کچھ ہورہا ہے۔ الیکشن سے قبل بڑی بڑی باتیں کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ووٹ لینے کیلئے عوام کی منتیں ترلے اور واسطے دے کر اپنے اچھا ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ مگر الیکشن جیتنے کے بعد عوام بے چاری ان مسائل کا شکار دکھائی دیتی ہے اور موصوف کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں بنالیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں اردو زبان کا عمل دخل بھی تھا۔ تحریک پاکستان میں اردو زبان نے جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی اور جو بھی کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ صرف قائداعظم ہی نہیں علامہ اقبال بھی اس نوزائیدہ مملکت میں اردو زبان کا نفاذ چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق جب اردو کے حق میں کانفرنس منعقد کررہے تھے تو ایک خط میں علامہ اقبال بابائے اردو کو لکھتے ہیں ’’اردو کے حق میں جو آپ آواز بلند کررہے ہیں یہ آپ کا احسان ہے۔ میری صحت اگر اجازت دیتی تو میں بھی آپ کا ساتھ دیتا ۔ مگر میری لسانی عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی اپنی تعلیمات کے پیش نظر جب 1973ء میں متفقہ آئین تیار کیا گیا تو اس میں بھی یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو ہوگی۔ آئین کی شق (1) 251 میں واضح طور پر درج کیا گیا کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو ہوگی اور پندرہ سال تک یعنی 1988ء تک اسے مکمل طور پر نافذ کردیا جائے گا۔ آج نفاذ کیلئے دی گئی تاریخ سے بھی 30 سال زیادہ ہوگئے ہیں مگر عملی طور پر اردو کو اس کا جائز حق نہیں دیا گیا۔ قومی زبان اردو کو نافذ کرنے کے بجائے الٹا انگریزی کو پہلی جماعت سے ہی نافذ کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی توجہ بھی اس آئین شکنی کی جانب کئی بار مبذول کرائی گئی ہے مگر بے سود؟چند سال قبل سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ فیصلہ بھی دے چکے ہیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے خاموشی؟ ہم نے جناب محترم ڈاکٹر جمیل ‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ جناب ڈاکٹر معین الدین وغیرہ جیسے اصحاب علم و دانش کی سرپرستی میں 2004ء میں تحریک نفاذ اردو کی داغ بیل ڈالی۔ جب جناب مجید نظامی سے تحریک کی سرپرستی فرمانے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی ایک کارکن کی حیثیت سے آپ کا ساتھ دوں گا۔ بہرحال ان اصحاب کی سرپرستی میں ہم نے تحریک نفاذ اردو کے پلیٹ فارم سے کئی نایاب کتب بھی پیش کیں۔ 2009ء سے تاحال اس سلسلے میں ہمارے کالم بھی شائع ہورہے ہیں جن میں ہم حکومت وقت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی قومی زبان کے عدم نفاذ کے بارے توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس اس اہم قومی مسئلے کی جانب کسی نے بھی توجہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ جنرل ضیاالحق کہنے کو تو ایک ڈکٹیٹر تھا مگر ان کے علاوہ آج تک کسی بھی حکومت وقت نے نفاذ اردو کی طرف توجہ مبذول نہیں کی۔ آخر کیوں؟
بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے، جس کے منشور میں یہ شامل ہو کہ ہم آئین کی روح کے مطابق قومی زبان اُردو کو پورے ملک میں عملی طور پر نافذ کریں گے۔ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس کا براہ راست تعلق قومی سلامتی کے ساتھ ہے۔ پوری دنیا میں آپ بخوبی جائزہ لیں ہر ملک کی اپنی ایک قومی و سرکاری زبان ہے جس میں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر 71سال کے بعد بھی ابھی تک ہمارے ہاں زبان کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے۔ انگریز تو یہاں سے چلا گیا مگر اس کی زبان کو ہمارے حکمران ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ دوسرے ممالک کے سربراہان یہاں آکر اپنی قومی زبانوں میں تقاریر کرتے ہیں لیکن ہمارے حکمران وہاں جا کر انگریزی بول کر اپنے ’’غیرت مند‘‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا ان کے پورے ملک میں تعلیم بھی چینی میں دی جاتی ہے۔ ایران میں ذریعہ تعلیم فارسی ہے۔ تمام ممالک میں یہی صورتحال ہے اور وہ ملک ترقی کی منازل بڑی سرعت کے ساتھ طے کر رہے ہیں ہمارے حکمران طبقے کو نہ ہی بانیانِ پاکستان کی تعلیمات سے کوئی شغف ہے نہ ہی قیام پاکستان کے مقاصد سے انہیں کوئی سرو کار، آئین پاکستان کی پاسداری کے یہ زبانی حد تک دعوے تو ضرور کرتے ہیں مگر عملی طور پر آئین کو پائوں تلے روندتے ہیں۔ یہ مسئلہ کون اور کب حل کرے گا؟ بھئی آپ انگریزی ہی نہیں پوری دنیا کی تمام زبانیں پڑھیئے کسی نے بھی آپ کو روکا تو نہیں لیکن اپنی قومی زبان اُردو کو قائداعظم کے فرمان اور 1973ء کے آئین کے مطابق نافذ تو کریں۔ آج اگر ہم سے کوئی بھی غیر ملکی سوال کرے کہ آپ کے ملک کی قومی و سرکاری زبان کونسی ہے تو بخدا شرمندگی کے ساتھ ہمارے سر جھک جاتے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی عوام سے تحریک نفاذ اُردو کے ایک ادنیٰ کارکن اور صدر ہونے کی حیثیت سے میری التماس ہے کہ جو بھی آپ کے پاس ووٹ مانگنے آئیں۔ ان سے و عدہ لیجئے کہ آپ برسراقتدار آکر آئین کی شق (1)125کے مطابق قومی زبان اُردو کا نفاذ کریں گے: …؎
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
’’سارے جہاں‘‘ میں دھوم ہماری زباں کی ہے