پاکستان اور کشمیریوں کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے
دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان مناتے ہوئے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ
مقبوضہ اور آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں گزشتہ روز کشمیری عوام نے یوم الحاق پاکستان منایا۔ اس سلسلہ میں کشمیریوں نے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کرکے اور ریلیاں نکال کر بھارتی فوجوں کے مقبوضہ وادی پر گزشتہ 70 سال سے جاری قبضے اور تسلط پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ کشمیریوں کے یہ مظاہرے اور احتجاج روکنے کیلئے بھارتی فوجوں نے ضلع شوپیاں کے گائوں مانچوارہ میں رات کے وقت چھاپے کے دوران نوجوانوں کو بے رحمی سے زدوکوب کیا اور علاقے میں کھڑی گاڑیوں اور دیگر املاک کو سخت نقصان پہنچایا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق قابض فوجی رات 9 بجے کے قریب گائوں میں داخل ہوئے اور گھروں میں گھس کر مکینوں بالخصوص نوجوانوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ فوجیوں نے گھروں کی کھڑکیاں اور شیشے بھی توڑ دیئے۔ اسی طرح ضلع پلوامہ میں بھارتی فورسز نے ایک شہری کے گھر کو مجاہدین کا ٹھکانہ قرار دیتے ہوئے گھر میں موجود مالک سمیت دو افراد کو گرفتار کرلیا اور وہاں سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ کریک ڈائون کے دوران بھارتی فوجیوں نے گھرگھر تلاشی لی اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ اہلکاروں نے گھروں میں خواتین اور بچوں سمیت اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کی۔
دوسری جانب بھارتی فوج نے کشمیری خواتین لیڈران آسیہ اندرابی‘ فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو گرفتار کرکے 30 دن تک جوڈیشل ریمانڈ پر بدنام زمانہ تہاڑ جیل منتقل کر دیا۔ کشمیری حریت لیڈروں سید علی گیلانی‘ میرواعظ عمرفاروق اور یٰسین ملک نے کشمیری خواتین کو تہاڑ جیل بھجوانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتقامی سیاسی کارروائی قرار دیا جبکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زیدرعدالحسین نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں انکی حالیہ رپورٹ پر بھارتی حکومت اور میڈیا کے ردعمل سے انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں یواین ہائی کمشنر کے ترجمان کی جانب سے جنیوا میں جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی میڈیا اپنی حکومت کی شہ پر ہائی کمشنر کی حالیہ رپورٹ کو پاکستان کے ایماء پر تیار کی گئی رپورٹ قرار دے رہا ہے حالانکہ یہ رپورٹ جن ذرائع کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے‘ ان میں بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان لوک سبھا اور راجیہ سبھا‘ بھارتی سپریم کورٹ‘ بھارتی وزارت داخلہ‘ وزارت دفاع‘ بھارتی آرمی چیف‘ ایک سابق بھارتی صدر اور مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور مقبوضہ کشمیر میں قائم انسانی حقوق کمیشن شامل ہیں۔ ترجمان نے باور کرایا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی کی اجازت نہیں دی جسکے باعث یہ رپورٹ مانیٹرنگ کی بنیاد پر تیار کی گئی۔
یہ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک اور اس تحریک میں اب تک دی گئی لاکھوں افراد کی جانوں کی قربانیاں پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ہیں کیونکہ کشمیری عوام نے قیام پاکستان سے بھی پہلے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرلیا تھا جس کیلئے انہوں نے اپنے قائد چودھری غلام عباس کی صدارت میں منعقدہ اپنے نمائندہ اجلاس میں باقاعدہ عہد کیا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد وہ خود کو پاکستان کے ساتھ منسلک کرلیں گے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے بھی اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا کیونکہ پاکستان کی خوشحالی اور اسکی معیشت کے استحکام کا دارومدار کشمیر کے راستے سے آنیوالے دریائوں کے پانی پر ہی تھا۔ ہندو لیڈر شپ کو بھی پاکستان کیلئے کشمیر کی اس اہمیت کا ادراک تھا اس لئے انہوں نے بادل نخواستہ پاکستان کی ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے تشکیل تو قبول کرلی مگر وہ خودمختار ریاستوں کے مذہبی اکثریتی آبادی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق سے متعلق تقسیم ہند کے فارمولے سے کشمیر کے معاملہ میں یکسر منحرف ہوگئے اور مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا‘ اسے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متنازعہ قرار دے کر تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا اور ساتھ ہی کشمیر میں بھارتی افواج داخل کرکے اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔ قائداعظم نے پاکستان کے اس وقت کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو بھارتی فوجوں سے کشمیر کا قبضہ چھڑانے کیلئے وہاں پاکستان کی افواج بھجوانے کا حکم دیا جس کی تعمیل سے جنرل گریسی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اس معاملہ میں اپنی برطانوی ہائی کمان کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر جنرل گریسی گورنر جنرل پاکستان قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرلیتے تو کشمیر کا تنازعہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا اور پاکستانی افواج کشمیر کو بھارتی تسلط سے اسی وقت آزاد کرالیتیں مگر کشمیر کا تنازعہ تو برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ ہندو لیڈر شپ نے ملی بھگت کرکے کھڑا کیا تھا اور انہی کی شہ پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کشمیر پر اپنا من گھڑت کیس تیار کرکے اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ اسکے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے تحت کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی جس پر بھارت نے پس و پیش سے کام لیا اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو بھارتی ریاست کا درجہ دیدیا۔
کشمیری عوام اس وقت سے ہی بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور اسکی خاطر بھارتی فوجوں کے سامنے سینے تانے کھڑے ہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کررہے۔ 1948ء سے جاری کشمیریوں کی یہ جدوجہد اب انکی تیسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے جس نے انٹرنیٹ کے ذریعہ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے بھارتی فوجوں کے ننگ انسانیت مظالم اور اپنے کاز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر انہیں سکیولرازم کے بھیس میں چھپا بھارت کا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔ کشمیری عوام اگر یہ قربانیاں پاکستان کے ساتھ الحاق کی خاطر دے رہے ہیں تو درحقیقت وہ پاکستان ور اسکے استحکام کا کیس لڑ رہے ہیں اس لئے کشمیری عوام کی جدوجہد کا دامے‘ درمے‘ سخنے ہی نہیں‘ عملی ساتھ دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اگر ہمارے حکمرانوں کی جانب سے کسی مرحلہ پر غفلت سے کام لیا گیا اور عالمی فورموں پر کشمیریوں کی آزادی کیلئے مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی تو اسکے باعث کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ متعین کئے گئے انکے مستقبل سے ہی مایوس کیا گیا۔ ہمارے بعض حکمرانوں کی بھارت کیلئے نرم پالیسیوں کے باعث ہی کشمیری لیڈران پاکستان سے اپنے مستقبل کے تعین کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے رہے ہیں تاہم مجموعی طور پر پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کسی قسم کی مفاہمت کرنے کی ہمارے کسی حکمران کو آج تک جرأت نہیں ہوئی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے تو کشمیر کی آزادی کیلئے بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا جبکہ انہوں نے اس مقصد کے تحت ہی پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عزم کا اظہار کیا جو بالآخر میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر ہی تنازعہ پیدا ہوا جو دونوں ممالک میں تین جنگوں اور پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا جبکہ بھارت نے کشمیر پر تسلط پاکستان کی جانب آنیوالا پانی روکنے کیلئے جمایا جو پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کے عزائم کے ساتھ ساتھآج اس پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہورہا ہے۔ اس تناظر میں اگر کشمیری عوام بھارتی تسلط کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں تو وہ درحقیقت پاکستان کے تحفظ اور استحکام کی جنگ لڑر ہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ وہ ہر سال 19 جولائی کو دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان منا کر بھی کرتے ہیں۔ وہ بالخصوص متعصب اور ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کے مظالم کے جدید ہتھکنڈوں کے آگے گزشتہ اڑھائی سال سے ڈٹ کر کھڑے ہیں اور پوری دنیا اور تمام عالمی قیادتوں کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھا چکے ہیں چنانچہ کشمیریوں کی اس آگاہی کی مہم کے نتیجہ میں ہی آج دنیا بھر سے انکے حق خودارادیت کی تائید میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھ رہا ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنیوالی یواین ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ بھی اسی بنیاد پر جاری ہوئی ہے جس پر مودی سرکار تلملائی ہوئی ہے اور اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر دنیا کی توجہ اصل حقائق سے ہٹانا چاہتی ہے۔ گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے بھارتی رویے پر بجا طور پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ لاکھوں کشمیریوں کے انسانی حقوق سے متعلق ہے جبکہ بھارت اس معاملہ میں انسانی حقوق کمشنر کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بھارت کشمیری عوام کی آواز دبانے کیلئے ان پر ظلم وجبر کے چاہے جو بھی ہتھکنڈے اختیار کرلے‘ بھارتی فوجوں کے تسلط سے آزادی اب کشمیری عوام کا مقدر بن چکا ہے۔ وہ آزاد ہو کر آج بھی پاکستان کے ساتھ منسلک ہونے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں انکی اس خواہش میں مایوسی کا عنصر بہرصورت داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کشمیریوں اور پاکستان کا مستقبل درحقیقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی وابستہ ہے اس لئے ہمیں اپنے مستقبل کی خاطر بھی کشمیریوں کا ساتھ دینا ہے جبکہ کشمیریوں کی آزادی کی منزل اب زیادہ دور نہیں رہی جو مودی سرکار نے اپنے مظالم سے خود ہی آسان بنادی ہے۔