آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج دینے سے انکار
پاکستان نے اپنی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے رابطہ کیا ہے تاہم آئی ایم ایف نے واضح کردیا ہے کہ اسکی شرائط پر عمل درآمد اور جامع اصلاحات کے ایجنڈے کے بغیر پاکستان کو کوئی بیل آئوٹ پیکیج نہیں دیا جائیگا۔
پاکستان کی معیشت عالمی اداروں کے قرضوں پر چلتی رہی ہے اس کیلئے عموماً ناروا شرائط پر قرض لیا جاتا ہے۔ اب نگران حکومت نے بھی یہی گُر آزمانے کی کوشش کی مگر آئی ایم ایف نے بے اعتباری کا آئینہ دکھاتے ہوئے کڑی شرائط میں مزید اضافہ کر دیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا کہ ماضی میں پاکستان کا حکومتوں نے جن شرائط پر قرضہ لیا۔ ان میں سے اکثر شرائط پوری نہیں کی گئیں۔ لہذا اب قرض لینا ہے تو شرائط پہلے پوری کرنا ہونگی۔نئے قرض کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ ٹیکس اصلاحات کرکے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔، ٹیکس وصولیاں بڑھائی جائیں۔ روپے کی قدر میں مزید کمی کی جائے اور اسے حقیقی سطح پر لایا جائے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جائے اور لائن لاسز کو صفر کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی عالمی ادارے نے کہا ہے کہ پی آئی اے ، سٹیل ملز اور دیگر قومی خزانے پر بوجھ اداروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ذرائع نے مزید بتایا آئی ایم ایف انڈی پینڈنٹ ایویلویشن آفس رپورٹ میں پاکستان کو کسی بھی نئے پروگرام سے پہلے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے کا کہا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے فنڈز کو عیاشیوں میں ضائع کرنے کی بجائے بہتر استعمال کا بھی کہا ہے۔ جی ایس ٹی کا دائرہ وسیع کرنے، زراعت پر ٹیکس نافذ کرنے، سبسڈیوں کے مکمل خاتمے کا نامکمل ایجنڈا مکمل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔نگران حکومت ان کڑی شرائط پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔ آئندہ آنیوالی حکومت کیلئے بھی پیشگی شرائط روح فرسا ہونگی۔ نگران حکومت کو بھی ایسی کوئی شرط قبول نہیں کرنی چاہئے۔ جس سے عوام کی زندگی مزید اجیرن ہو جائے تاہم ٹیکس وصولی کیلئے ہر ممکن اقدام ضرور اٹھانا چاہئے۔ نگران حضرات خود انحصاری کیلئے جو کر سکتے ہیںضرور کرنا چاہئے۔ عالمی اداروں کے قرضوں سے نجات کیلئے خودانحصاری کی پالیسی اختیار کرنا مستقبل کی حکومت کیلئے ضروری ہے۔