عمران‘ نوازشریف کیلئے الگ الگ معیارات
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کے کیس میں نیب کی جانب سے طلب کئے جانے پر پیشی کیلئے مہلت مانگ لی۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے 2 فروری کو عمران خان کی جانب سے خیبر پی کے حکومت کے 2 ہیلی کاپٹرز کو غیرسرکاری دوروں کیلئے نہایت ارزاں نرخوں پر استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا۔
ملزموں کے حوالے سے نیب کی سخت رویئے کی شہرت ہے۔ انتخابات کی آمد کے ساتھ اسکی فعالیت دوچند نظر آئی‘ تاہم ایک مرحلے پر کہا گیا کہ انتخابات تک اس کی توپیں امیدواروں کے بارے میں خاموش رہیں گی۔ اس میں بھی جانبداری کی ڈنڈی نظر آئی۔ چودھری نثار کے مقابل امیدوار بدستور زیرحراست ہے۔ شہبازشریف کو گزشتہ دنوں طلب کیا گیا تھا۔ ایسی طلبی گزشتہ روز عمران خان کی بھی تھی مگر وہ نیب کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔ انکی طرف سے یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا گیا کہ وہ انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ اس پر نیب نے چپ سادھ لی اور صرف یہ تصدیق کی کہ عمران خان کی درخواست موصول ہو گئی ہے جبکہ عمران خان کی طرف سے 7 اگست کی تاریخ مقررکرنے کو کہا گیا ہے۔سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی احتساب عدالت میں 7 روز تک فیصلہ مؤخر کرنے کی استدعا کی تھی مگر وہ منظو نہ ہوئی۔ نیب اور عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے اگر دوہرے معیار کی بات کی جاتی ہے تو یہ غلط نہیں ہے۔ ایک طرف خاص پارٹی اور اس کی لیڈرشپ سے رعایت‘ دوسری طرف اس پارٹی کے مخالفین سے درشت اور ترش رویہ عین انتخابات کے موقع پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بجا کہ نگران وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم، مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا ٹرائل کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کیلئے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی منظوری دیدی ہے۔مگر جیل میں اب بھی نواز اور مریم کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراطلاعات پرویز رشید کا میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات کے بعد کہنا ہے کہ باپ بیٹی پر جیل میں سختی موجود ہے۔ دونوں کی ایک ہی چاردیواری کے اندر رہتے ہوئے آج پہلی بار ملاقات ہوئی۔ حکومت اور نیب کی طرف سے کسی پارٹی کی لیڈر شپ سے رعایت اور کسی کیلئے سخت گیری مناسب نہیں۔