جمعۃ المبارک ‘ 6؍ذیقعد 1439 ھ ‘ 20؍ جولائی 2018ء
کراچی میں سیاسی پارٹی کے کارکنوں کا گدھے پر وحشیانہ تشدد
انسان جب وحشت اور سنگدلی پر اتر آتا ہے تو جنگل کے درندوں کو بھی مات دے دیتا ہے۔ ہماری سیاست میں ابھی تک اسی تاریک دور کی وحشت نجانے کیوں سمائی ہوئی لگتی ہے جب انسان درندوں جیسی زندگی بسر کرتا تھا۔ کراچی جیسے جدید شہر کے متمدن باسیوں نے گزشتہ روز ایک معصوم بے زبان جانور کو جس طرح مار مار کر زخمی کیا‘ وہ ہمارے ان سیاستدانوں کیلئے باعث شرم ہے۔ جو تقریر کرتے وقت مخالف سیاستدانوں یا کارکنوں کیلئے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ کسی جماعت کو کیا زیب دیتا ہے کہ وہ گدھے پر مخالف جماعت یا رہنما کا نام لکھ کر اسے تشدد کا نشانہ بنائیں۔ کیا یہی تہذیب ہمارے رہنما اپنے کارکنوں کو سکھاتے ہیں۔ اب زخموں سے چور چور اس گدھے کا انسداد بے رحمی حیوانات یا کسی خدا ترس آدمی کے توسط سے علاج ہو رہا ہے۔ یہ بے زبان جانو بزبان حال انسانوں کی پست ذہنیت کا دکھڑا کسے سنائے جو کراچی جیسے شہر میں اب اس کے دکھ کا مداوا کر سکے۔ یہ وہی کراچی ہے جہاں کبھی سندھ ہائیکورٹ کے ایک رحم دل جج جناب محمد بخش جیسا مسیحا صفت انسان بھی ہوتا تھا۔ جو بے زبان جانوروں سے محبت کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ ان ظالموں کی بروقت کلاس لیتے جو جانوروں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ لادتے یا انہیں بے رحمی سے مار پیٹ کا نشانہ بناتے۔ انہی کی طرح صحافتی دنیا کے ایک محترم کالم نگار کائوس جی بھی بے شمار لاوارث بیمار اور زخمی جانوروں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کیلئے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔اب یہ دونوں اس دنیا میں نہیں تو یہ بے زبان جانور اپنا کھڑا کسے جا کر سنائیں ’’کوئی محرم دل دا نئی جگ وچ ملدا‘‘ ۔ محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات اگر خود ایکشن لے اور کسی ٹی وی فوٹیج سے اگر وہ بے رحم انسان پکڑے جا سکتے ہیں تو ان کو پکڑ کر سخت سزا دی جائے۔
…٭٭……٭٭…
مہمند میں سراج الحق کا سٹیج گر پڑا‘ نارروال میں ابرارالحق کے مائیک میں کرنٹ آگیا
خدا خیر کرے چند روز پہلے خیبر پی کے میں کسی جلسے کے دوران پرویز خٹک سٹیج سے گر کر زخمی ہو گئے جنہیں اب اطلاعات کیمطابق دروغ برگردن راوی پشاور کے عالمی نوعیت کے جدید ہسپتالوںکے ہوتے ہوئے بہتر علاج معالجے کیلئے راولپنڈی اسلام آباد کے کسی معمولی سے ہسپتال پہنچا دیا ہے۔ شاید پشاور میں علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے ایسا کیاگیا ہو یا خٹک صاحب عوامی علاج کرنا چاہتے ہوں۔ اب گزشتہ روز مہمند میں جماعت اسلامی کے جلسے کے دوران اطلاعات کیمطابق وزن زیادہ ہونے سے معلوم نہیں صالحین کا یا سیاسی کارکنوں کا وزن زیادہ ہو گیا‘ بے چارہ سٹیج یوں زمین بوس ہوا کہ ذہن میں بے ساختہ عدم کا شعر آگیا جو ہم فتنے کے ڈر سے آدھا ہی لکھ رہے ہیں…ع ’’حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا‘‘
اسکے ساتھ تمام رہنما بھی زمین بوس ہو گئے۔ شکر ہے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بس ہلکی سی معمولی چوٹ ایک آدھ بندے کو لگی۔ اسی طرح گزشتہ روز نارروال میںجلسے کے دوران تحریک انصاف کے رہنما ’’کنے کنے جاناں اے بلودے گھر‘‘ والے ابرارالحق کی تقریر کے دوران انکے مائیک میں کرنٹ آگیا اور وہ تھرتھرا کر رہ گئے۔ انکی تھرتھراہٹ سے پہلے تو لگا کہ وہ کسی مصرعے پر پھڑک اٹھے ہونگے مگر ان کے مائیک پھینکنے سے پتہ چلا کہ کرنٹ تیز تھا۔ شکر ہے انہوں نے اس کا الزام بھی مسلم لیگ (ن) پر نہیں ڈال دیا۔ ان حالات میں مشورہ تو یہی ہے کہ تمام سیاستدان اپنا صدقہ دیکر الیکشن مہم پر نکلا کریں۔ رہ گئے کارکن اور عوام تو ان کا اللہ ہی حافظ و ناصر ہے جو اس برسات کے موسم میں بھی کھمبوں پر چڑھ کر بینر لگا رہے ہوتے ہیں۔
…٭٭……٭٭…
اڈیالہ جیل کے باہر میاں نوازشریف سے ملاقات کرنے والوں کا ہجوم
کئی روز سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ئوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے اسیر قائد سے ملاقات کا شوق لئے جیل کے باہر جمع ہو جاتی ہے مگر ایسا چونکہ ممکن نہیں تھا اس لئے انہیں مایوسی ہوتی اور شام ڈھلے وہ آہستہ آہستہ پرندوں کی طرح اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے۔ اس دوران جیل کے باہر میلے کا سماں ہوتا ہے جس کی بھنک بھی اگر میاں صاحب اور مریم نواز کو پڑی ہوگی تو انہیں احساس ہوگا کہ عوام کی بڑی تعداد آج بھی انکی چاہت میں مبتلا ہے اور جیل کی بلند دیوارو ںکی رکاوٹ نہ ہوتی تو وہ اڑ کر اپنے قائدین سے ملتے۔ کئی جوشیلے کارکنوں نے تو گلدستوں کے ڈھیر بھی لگا دیئے جو وہ لیکر میاں صاحب سے ملنے آئے تھے۔ گزشتہ روز جمعرات کا دن ملاقات کا دن تھا۔ اس روز بادل بھی خوب برسا‘ جل تھل کا سماں تھا مگر کارکنوں اور عہدیداران کی بڑی تعداد اپنے قائد سے ملاقات کا ارمان لئے جیل کے باہر پہنچی۔ ملاقات ان ہی کا مقدر ٹھہری جن کو اجازت ملی۔ باقی سب جیل کے باہر ہی جنگل میں منگل کا سماں بنائے بیٹھے رہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر اب تو ایسا ہی مجمع جمع ہوتا رہا تو لوگ اسے کسی پیر کا ڈیرہ سمجھنے لگیں گے جہاں ہر وقت مست متوالے ڈیرہ ڈالے ’’شیر اک واری فیر‘‘ اور ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کا جاپ الاپ کرتے نظرآئینگے۔ اب شاید اس رش سے بچنے کیلئے اطلاعات ہیں کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہائوس منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ اڈیالہ کے باہر اس قسم کے مست ملنگ اجتماعات سے جیل انتظامیہ کی جان چھوٹ سکے۔
…٭٭……٭٭…
لندن کے بعد دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تلاش
ہمارے ہاں کالادھن سفید کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ مگر حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ کوئی بھی مالدار آسامی اپنا کالادھن سفید کرانے میں مخلص نظر نہیں آتی۔ یوں لگتا ہے یہ سب اپنا مال و متاع سمیٹ کر اگلے جہاں کے سفر پر روانہ ہو جائینگے حالانکہ یہ سعادت صرف قارون کے حصے میں آئی ہے جسے بطور سزا مال و دولت جمع کرنے کی پاداش میں اسکی دولت سمیت زندہ زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اسکے مقابلے میں سکندراعظم جو نوجوان‘ دلیر اور فاتح اعظم تھا‘ زیادہ عقلمند اور دانا نکلا۔ اس نے عین جوانی میں وفات پائی مگر وصیت کر گیا کہ اسکے ہاتھ کفن سے باہر نکال کر رکھے جائیں تاکہ سب کو معلوم ہو سکندر جب دنیا سے گیا‘ اسکے دونوں ہاتھ خالی تھے مگر ہمارے سرمایہ دار اشرفیہ‘ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کو یہ بات کون سمجھائے شاید یہ بات سمجھ بھی اس کو ہی آتی ہے جس کے پاس سکندر جیسا دماغ ہو۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے لوگوں کے پاس سکندر جیسا دماغ نہیں البتہ قارون جیسی دولت بہت ہے۔ اب ایف بی آر والے لندن کے بعد دبئی میں بھی جائیدادیں بنانے والوں کا کھوج لگا رہے ہیں۔ جہاں اطلاعات کیمطابق 31 پاکستانیوں کی 60 ارب روپے مالیت کی 55 کے قریب جائیدادیں ہیں۔ اب دیکھنا ہے ایف بی آر والے اس مال و زر کے پہاڑ کو کاٹ کر وہاں سے دودھ کی نہر اپنے ملک کی طرف کب لاتے ہیں۔
…٭٭……٭٭…