سانحہ چار سدہ اور سانحہ مستونگ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ دعا ہے کہ رب العالمین شہداء کے درجات بلند کرے۔ زخمیوں کو شفا دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین!انا للہ وان الیہ راجعون۔
ماشاء اللہ تمام تر ہچکولوں اور دھکوں کے باوجود جمہوریت پاکستان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ دو جمہوری حکومتیں اپنے اپنے ادوار پورے کر چکی ہیں۔ تیسرے جمہوری دور کیلئے انتخابات محض چند دن کی دوری پر ہیں۔ ان انتخابات سے پہلے جو دو اہم فیکٹرزسامنے آئے ہیں وہ آزاد عدلیہ اور آزاد نیب کی کاروائیاں ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھتے تھے۔ملک میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ عدلیہ نے ان کیخلاف کاروائی کی ہے۔ اسی طرح نیب نے بھی کرپشن کیخلاف مہم شروع کررکھی ہے۔ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے نیب پر عزم معلوم ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے بت گرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ قوم کیلئے یہ پہلا موقع ہے کہ احتساب کا عمل نیچے پٹواری یا چپڑاسی سے شروع کرنے کی بجائے اوپر سے شروع کیا گیا ہے اور یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے ایک بہت ہی نیک شگون ہے۔
کرپشن ختم کرنے کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ جناب چیف جسٹس صاحب کے چار دوسرے فیصلے بھی بڑے اہم ہیں۔ ان کا اس سلسلے میں پہلا کارنامہ ڈیمز کی تعمیر کا فیصلہ ہے۔ پاکستان میں پانی کی مقدار دن بہ دن کم ہورہی ہے۔ ہمارے دریائوں پر بھارت نے قبضہ کر لیا ہے۔ زیر زمین پانی تین سو فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے اور اس میں آرسینک آرہا ہے جو صحت کیلئے بہت خطرناک ہے۔ زراعت کو تو چھوڑیں اب تو عوام کو پینے کا پانی تک نہیں مل رہا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں عوام پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ انہیں جو پانی مل رہا ہے وہ پینے کے قابل ہی نہیں۔ ملک کے دیگر حصوں بشمول دیہاتی علاقہ جات میں جو پانی مختلف ذرائع سے مل رہا ہے خصوصاً زیر زمین سے حاصل کیا گیا پانی مختلف بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔اگر خدانخواستہ یہی صورت حال رہی تو چند سالوں تک پاکستان کی حالت صومالیہ جیسی ہو جائیگی۔
لوگ ایک گلاس پانی کے حصول کیلئے آپس میں لڑائیاں کرینگے۔ اگر ہم اس صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر صورت ڈیمز تعمیر کرنے پڑینگے۔ ہماری سلامتی اور زندگی کا انحصار پانی پر ہے جو ہمیں ہر صورت حاصل کرنا ہے۔ پانی کیساتھ ساتھ ہمیں بجلی کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ہماری معاشی ترقی کا انحصار مکمل طور پر بجلی پر ہے اور اس وقت ملک میں کم از کم 6سے 8ہزار میگا واٹ تک بجلی کی کمی ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے عظیم سیاستدانوں نے ڈیمز کی تعمیر کا آج تک احساس ہی نہیں کیا۔ یہ لوگ صبح شام فوجی آمروں کو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ انہیں ہروقت برا بھلا کہتے ہیں لیکن دعا دینی چاہیے اس فوجی آمر کو جس نے اس اہم قومی ضرورت کا ساٹھ کی دہائی میں احساس کیا اور قوم کیلئے ڈیمز تعمیر کیے ورنہ آج ہمارا حال ایتھوپیا جیسا ہوتا۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کو یہ ڈیمز بنانے پڑتے تو وہ انہیں بھی کالا باغ کی طرح متنازعہ بنا دیتے۔بہرحال اللہ بھلا کرے اپنے چیف جسٹس صاحب کا جس نے اتنابڑا اہم فیصلہ کیا ہے۔ قوم اس فیصلے پر بہت خوش ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ قوم اس سلسلے میں محترم چیف جسٹس صاحب سے مکمل تعاون کریگی۔
چیف جسٹس صاحب کا دوسرا بڑا فیصلہ ملک سے لوٹی گئی دولت جو دنیا کے مختلف ممالک کے بینکوں میں جمع ہے یا اس سے سرے محل، ایون فیلڈ یا دبئی ٹاور جیسی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔ ایک سابق چیئرمین نیب کے مطابق ہر ماہ بارہ ارب روپے لوٹ کر باہر بھیجے جاتے ہیں اور یہ کام کرنے والے ہمارے عظیم راہنما ہیں اس لئے عوام دن بہ دن غریب ہو رہے اور عظیم لوگ دن بہ دن امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کیمطابق ان لوگوں کی 200ارب ڈالرز سے زیادہ رقم باہر جمع ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب یا قوم یہ دولت واپس لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو نہ صرف پاکستان کا تمام قرضہ اتر جائیگا بلکہ تیس سالوں تک باہر سے قرض لینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئیگی۔ بہت سے ترقیاتی کام ہو سکتے ہیں۔
چیف صاحب کا تیسرا فیصلہ ان عظیم اور ایماندار لوگوں سے قرضے کی وہ رقوم واپس لینی ہیں جو انہوں نے معاف کرا رکھی ہیں۔ دعا دیں ان حاتم طائیوں کو جنہوں نے قوم کے ان عظیم فرندوں کو قرض دلائے اور پھر بادشاہوں کی طرح لہر میں آکر یہ قرض معاف فرماتے رہے ۔جیسا کہ یہ انکے باپ کا خزانہ ہو۔ اخبارات کیمطابق 56 ارب روپے کا قرض معاف کیا گیا۔ یہ عوام کا پیسہ ہے جو محنت اور خون پسینے کی کمائی ہے۔ لوگ بھوک کاٹ کر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ بڑے پیٹوں والے سب کچھ ہضم کر جاتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب یہ پیسہ واپس لیکر ڈیمز کی تعمیر پر لگانا چاہتے ہیں۔
چوتھا اہم فیصلہ ملکی قرضے سے جان چھڑانا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ملک کو ڈالروں کے عوض بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے نہیں بیچا جا سکتا جو ہمارے سیاستدانوں نے کیا ہے۔پہلے بھی ایک نیک نام اور بڑے سیاستدان نے ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کی مہم چلا کر کافی سرمایہ اکٹھا کیا تھا جس کا آج تک نہیں پتہ کہ وہ کہاں گیا۔خدا کرے کہ اب چیف جسٹس صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔
چیف جسٹس اور نیب کے فیصلے اپنی جگہ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ اہم فیصلے ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے اور پاکستان کا مستقل تابناک ہوگا۔ ان دو اداروں کی کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ انتخابات اور بھی ایک لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ ووٹرز اپنے اپنے حلقے میں اپنے سابقہ ممبران سے بلاجھجک کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں۔ عوام نے کسی وڈیرے، جاگیردار یا قبائلی سردار کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ اس سے پہلے ووٹرز ہمیشہ دبے دبے رہتے تھے۔ جہاں وڈیرے یا سردار کہتے وہیں خاموشی سے ووٹ دے آتے تھے مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔ عوام جا گ چکے ہیں۔ ماشاء اللہ باشعور ہو چکے ہیں اور یہ پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔ عوام خود بھی سیاستدانوں کے احتساب کیلئے تیار ہیں۔ عوام کے باشعور ہونے سے بہت سے سیاستدان گھبرا گئے ہیں۔ ایسی تبدیلی انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ عوام کے رد عمل سے ایک چیز یقینی ہے کہ آئندہ سیاستدان عوام کو پہلے کی طرح بیوقوف نہیں بنا سکیں گے۔ کامیاب وہی ہوگا جو عوام کیلئے اور علاقے کی بہتری کیلئے کام کریگا۔ خالی نعروں اور خالی وعدوں پر عوام کو نہیں ٹرخا سکیں گے۔ لہٰذا اب سیاستدانوں کو بھی اپنے رویے ا ور کارکردگی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔25جولائی فیصلے کا دن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دینگے۔ انشاء اللہ اس فیصلے سے قوم کی قسمت بدلے گی۔ پاکستان کامستقبل روشن ہوگا۔ لہٰذا عوام زندہ باد۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024