’’اگر ٹاپ تے بندے دا پتر بیٹھا ہووے تے تھلے کوئی کج نہیں کر سکدا‘‘یہ تھے چوٹی کے ایک رہنما جو (Trickle down efferct) کے معاشی نظرئیے کو سیاسی تھیوری بنا کر پیش کر رہے تھے۔Electables کا اصل مفہوم سدابہار کیا جانا چاہئے۔ انہیں تحقیر سے لوٹا قرار دینا کسی طور درست نہیںیہ لوگ کسی نظرئیے، سیاسی جماعت، یا فلسفے کے محتاج نہیں ہوتے‘ افسر شاہی کے بعد یہی حکمران ہوتے ہیں ملک میں فوجی آجائیں یا جمہوریت کا دور دورہ ہوجائے انتخابات غیر جماعتی ہوں جماعتی، پارلیمانی یہ لوگ اس کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔
تحریکِ انصاف ، تبدیلی اور انقلاب کے نعرے لگاتی میدان میں نکلی تھی پاکستان میں آدھی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے تو یہ جوان، تبدیلی اور انقلاب کی آس میں جوق در جوق، تحریکِ انصاف میں شامل ہوتے گئے۔ یہ بڑا حوصلہ افزا عمل تھا کہ کم سے کم جوان اس ملک کو اپنا سمجھ کے، سیاسی عمل میں حصہ لے رہے ہیں یہ گمان ہونے لگا کہ انکے جوان خون کی حدت سے اس ارضِ وطن کے عارض ولب و گیسو بھی دمک اٹھیں اور اسکی بیمار جوانی کو شفا ہو جائے۔پے در پے ناکامیوں نے عمران خان کو تلخ زمینی حقائق سے روشناس کرادیا اور انہیں سمجھ آگئی کہ سدا بہار فتح مند (electables)ہی ان کی نّیا پار لگا سکتے ہیں۔پھر وہی ہوا جو ہر انقلاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے تحریکِ انصاف کو اپنے لہو سے سینچا تھا، انہیں مقامی سطح پہ بھگتا کے وہی، چہرے نظر آتے ہیں اب کی بار پی ٹی آئی کے رنگ میں رنگے نظر آنے لگے۔
سیاسی لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کے بعد یہ پرانی بدبودار پوستینیں، دھل رہی ہیں تو اس بار انتخابات کے موسم میں ہمیں ایک نئی اصطلاح ملی ہے، آئندہ سے اپنے اپنے علاقے کے لوٹوں کو،' الیکٹ ایبلز ' لکھیں اور پکاریں۔ اہلِ وطن کو برسات اور' الیکٹ ایبلز ' مبارک ہوں جو سدا بہار ہیں جن پر خزاں کبھی نہیں آئے گئی۔
اسکے ساتھ ہی اس کالم نگار کو جگ بیتی نہیں ‘ ھڈ بیتی کہانیاں یاد آنے لگیں جو میرے لہجے میں تلخی کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ہماری دیہی زندگی آج بھی طلسم ہوشربا کی طرح ہے شہری بابوؤں کو بظاہر خوبصورت دکھنے والی اس سرسبز وشاداب منظر کے پس پردہ چھپی سنگینیوں کا ادراک نہیں ہو سکتا۔اسی طرح ہمارے دیہی حلقوں کامنظر بھی شہرسے یکسر مختلف اورجدا ہے جہاں فیصلے اصولوں اورنظریات کی بجائے عہد قدیم کے ریتی رواج پر ہوتے ہے۔ووٹ کی عزت وتکریم کے نعرے چاروں اور گونج رہے ہیں ووٹ کو عزت دینے کے ترانے جوش وخروش کو بڑھا رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں ووٹ کو جو عزت جناب نواز شریف اور انکے حالی موالیوں نے دی ہے اسکی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔اس کالم نگار کے آبائی حلقہ انتخاب سے رکن قومی اسمبلی بوجوہ عدالتی کارروائی کے بعد نااہل قرار پائے ووٹ کو عزت دینے کے دعویدارنے جعل سازی ثابت ہونے کے بعدموصوف کیخلاف تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے انکے چھوٹے بھائی کو ٹکٹ جاری کردیا اس ضمنی انتخاب میں انکے مدمقابل سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کے کزن تصدق مسعود خان پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے ہمارا حلقہ انتخاب بھی ایسے حلقوں میں شامل ہے جہاں آج بھی ووٹ دینے کے فیصلے اصول، نظریات یاسیاسی وابستگیوں کے حوالے سے نہیں برادریوں اور قبائیلی تعصب کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔مرکز اورپنجاب میں نون لیگ کی حکومت تھی۔یہاں سے جیتنا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے زندگی اورموت کا مسئلہ بنا لیا جبکہ حلقہ والوں کیلئے یہ دوبڑی زمین دار ،جاٹ اور راجپوت برادریوں میں مقابلہ تھا اس میں کسی قسم کے نظریات یا شخصیات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا جس کی تعداد عام طور پر برابر سمجھی جاتی ہے جبکہ ایسے انتخاب میں فیصلہ کن کردار ''کمی''یا غیر ز مین داربرادری اداکرتی ہے۔قارئین کیلئے یہ انکشاف ہوگا کہ انتخابات آتے ہی70 سال پرانامقامی اورمہاجر کا فسانہ دوبارہ منظرعام پر آجاتا ہے میرا اپنا ووٹ بھی وہیں پر درج ہے ہر بار بڑے اہتمام سے ووٹ ڈالنے جاتاہوں اسی لیے اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر 2013کے عام انتخاب میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا تھا کہ حیرت انگیز طور پر ووٹنگ کی شرح ماضی کی نسبت دوگنی ہوچکی تھی اورسارااضافی ووٹ نون لیگ کو ملا تھا۔جس کی وجہ سے ہمارے آزاد امیدوار بلال اعجاز 70ہزار ووٹ لیکرہارگئے تھے جبکہ انکے مدمقابل ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیکر کامیاب رہے انہیں 50ہزار کے لگ بھگ اضافی ووٹ ملے تھے بعد ازاں وہ نااہل قرار پائے تو ضمنی انتخاب کیلئے میدان سج گیا جس کامیابی کیلئے جائز ناجائز ہتھکنڈے آزمائے تھے۔ اس وقت گوجرانوالہ پولیس کے سربراہ برادرم ذوالفقارچیمہ تھے اب ہمارے ساتھی کالم نگار چیمہ صاحب اس ضمنی انتخاب کا کہی ان کہی کہانیاں سنا کر ششدر کر دیتے ہیں وہ بتارہے تھے کہ صوبائی وزراء خاص طوررانا ثناء اللہ مسلسل عدم تعاون کی شکایت کرتے رہے جبکہ چیمہ صاحب انہیں بتاتے رہے کہ امن امان قائم رکھنا اورآزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخاب میری ذمہ داری ہے جو میں مکمل دیانت داری سے ادا کر رہا ہوں۔ آپ کو کس قسم کا تعاون درکار ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ ماڈل ٹاون گوجرانوالہ میں الیکشن کمیشن کا جعلی دفتر بنایا گیاتاکہ من پسند نتائج جاری کرکے فتح کا اعلان کیا جا سکے۔ ذوالفقار چیمہ صاحب نے اس سے پہلے جعلی الیکشن کمیشن پر چھاپہ مارا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ انتخابی نتائج میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہوسکے اس طرح تصدق مسعود خاں کامیاب ٹھہرے۔
اخبارنویسوں میں صرف خاکسار اس حلقے میں واحد ووٹر تھا لیکن سر شام سرمئی جادؤئی سکرینوں پر بیٹھ کر دور کی کوڑی لانے والوں نے مجھ سے رابطہ کرنے یاپوچھنے کی زحمت تک نہ کی کہ میاں آپ کیا بیچتے ہو،ایک استثنا برادرم نصرت جاوید کو تھا کہ بڈھاگورائیہ کے حوالے سے جانتے تھے کہ اس حلقے میں میرا ووٹ بھی ہے انہوں نے استفسار کیا تو بتایا کہ میں تو خود پارٹی ہوں غیرجانبدارانہ تجزیہ خاک کروں گا اورعرض کردی کہ تمام ترحکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود ہمارا امیدوار جیت جائیگا ۔
گذشتہ دنوں انگریزی مایہ ناز نثرنگار عدنان رحمت سے گپ شپ کے دوران خاکسار نے انکشاف کیا کہ گذشتہ عام انتخاب 2013 میں ،میں نے ایک آزاد امیدوار کوبالٹی کے نشان پرووٹ دیا تھا تو وہ حیران رہ گئے کہ کیا نگاہ انتخاب ہے پھر انہیں تفصیل سے بتانا پڑا کہ ووٹرکی بھی کیا کیا مجبوریاں ہوتی ہیں ان کی اہلیہ عصمت بھابھی جو معروف برادکاسٹر ہیں فرمانے لگیں کہ میں نے زمینی حقائق بتاکر انہیں مایوس کیا ہے۔اگر مجھ ایسے پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح سوچیں گے اور زمان? قدیم کے ریتی رواج پر فیصلے کرینگے تو تبدیلی تو نہیں آئے گی۔یہی عرض ہے کہ حقیقی تبدیلی بہت دور ہے اس کے لئے امام زمان’ امام خمینی جیسی استقامت چاہئے ویسی قربانی اور حوصلہ چاہئے جو کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024