حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ بڑے شد ومد کے ساتھ عمال کا احتساب کا فوری نوٹس لیتے تھے۔ والی اصطحر منذر بن جارود کے متعلق شکایت ملی کہ اپنا زیادہ وقت سیر وشکار میں صرف کرتے ہیں اور فرائض منصبی پر دھیان نہیں دیتے۔ انہیں لکھا: ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے فرائض چھوڑ کر سیرو شکار پر نکل جاتے ہو اور کتوں سے کھیلتے ہو، اگر یہ صحیح ہے تو میں تم کو اس کا بدلہ دونگا، تمہارے گھر کا جاہل بھی تم سے بہتر ہے‘‘ چنانچہ انہیں معزول کر دیا۔ایک اور عامل کے متعلق شکایتیں ملیں تو اسے ایک طویل خط لکھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم عیش و تنعم کی زندگی بسر کرتے ہو، مقویات اور روغنیات کا زیادہ استعمال کرتے ہو۔ تمہارے دستر خوان پر الوان نعمت ہوتے ہیں، منبر پر تم صد یقین کا وعظ کرتے ہو اور خلوت میں اہل لباحت کا عمل ہے۔ اگر یہ شکایتیں صحیح ہیں تو تم نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا اور مجھے تادیب پر مجبور کیا۔ تم بیواؤں اور یتیموں سے حاصل کئے ہوئے مال سے عیش و تنعم میں ڈوب کر خدا سے صالحین کے اجر کی توقع کس طرح رکھتے ہو؟ گناہوں سے توبہ کر کے اپنے نفس کی اصلاح کرو اور خدا کے حقوق ادا کرو‘‘
عمال سے محاصل و خراج کی آمدنی کا نہایت سختی کے ساتھ حساب لیتے تھے۔ تاخیر ہو جاتی تو فہمائشی احکام جاری کرتے۔ ایک مرتبہ یزید بن قیس ارجی نے خراج بھیجنے میں تاخیر کی تو آپ نے لکھا: ’’تم نے خراج کے بھیجنے میں تاخیر کی اس کا سبب تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں تم کو خدا سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، ایسا کام ہرگز نہ کرو جس سے تمہارا اجر اور تمہارا جہاد برباد ہو جائے، خدا سے ڈرو اور اپنے نفس کو حرام مال سے پاک رکھو اور مجھ کو اس کا موقع نہ دو کہ تم سے مواخذہ کرنے پر مجبور ہو جاؤں‘‘۔
اسلام کے تصور احتساب کے اس تذکرہ کے بعد ہم اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف اک لوٹ مچی ہوئی ہے۔ آزادی کیا ملی یار لوگوں نے اپنے آپ کو ہر پابندی اور ضابطے سے آزاد سمجھ لیا۔ جس کا جس قدر داؤ چلا، چلایا۔ ایک دوسرے کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل بھی خوب تختہ مشق بنے۔ نتیجتاً معاشرہ میں معاشی انصاف ختم ہو گیا، امیر اور غریب کی خلیج و سیع ہوتی چلی گئی۔ ملکی وسائل، ہوس پرستوں کا پیٹ نہ بھر سکے تو غیر ملکی قرضوں کا رواج چل نکلا، جو لئے تو ملکی ترقی کے نام پر، لیکن سیدھے کرپٹ اہل اقتدار کی جیبوں میں چلے گئے۔ بات جب حد سے بڑھ گئی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اہل درد کی طرف سے احتجاج کی کمزور سی آواز اٹھی، لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟ پھر محض فیشن کے طور پر احتساب کی باتیں ہونے لگیں، کبھی کمیٹی بنی، کمیٹی کمشن بٹھایا گیا اور کبھی بیورو تخلیق مگر کرپشن کی آکاس بیل پھیلتی چلی گئی اور احتساب لفظی ہیر پھیر سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بڑھنا بھی کیسے؟ اس حمام میں سبھی ننگے تھے۔ سب ایک دوسرے کی کرتوتوں سے آگاہ ، کون کسی پر ہاتھ ڈالتا کہ ’’ایں جرمیست کہ در شہر شمانیزی کند،،
زبان کی حد تک ہر کوئی کرپشن کی شکایت کرتا، احتساب کے گن گاتا، اس کا نفوذ بھی چاہتا، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ سب کو پکڑیں لیکن مجھے چھوڑ دیں۔ ایسے میں جو بھی کارروائیاں ہوئیں، نیم دلانہ اور یکطرفہ تھیں۔
ہمارا یہ طرز عمل اصل میں اسلامی تعلیمات اور اقدار سے دوری کا نتیجہ ہے، ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن چلتے کسی اور ہی راستے پر ہیں اسلام نفس کشی سکھاتا ہے، ہم اسے پالتے ہیں، اسلام ایثار قربانی کا درس دیتا ہے، ہم ہیں کہ چھینا جھپٹی میں ثانی نہیں رکھتے، اسلام خدمت خلق کی تلقین کرتا ہے، ہم خلق خدا کی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسلام سادگی اور فروتنی کی بات کرتا ہے، ہم کبر و نخوت میں پاگل ہو جاتے ہیں، اسلام اخوت و بھائی چارے کا کہتا ہے اور ہم خونی رشتوں کی پہچان بھول بیٹھے ہیں۔ اسلام کڑے احتساب کا حکم دیتا ہے اور ہم ہیں کہ چور دروازوں کی تلاش میں ثانی نہیں رکھتے، لیکن ایسے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اپنے اس طرز عمل سے ہم محض اپنی ذات کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آپ چھپا کس سے رہے ہیں؟ اللہ کی ذات تو علیم و خبیر ہے ، وہ تو آپ کے ارادوں تک سے آگاہ ہے۔ اصل میں ہم خسارے میں ہیں ، دھوکہ یہ لگا ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسے سنوارنے کے چکر میں گمراہی کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ معاملہ محض اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ یہ تو اگلے جہاں بھی جاری رہے گا۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ لاکھ منصوبے بنا لیں اربوں جمع کر لیں، تدبیر الٹتے دیر نہیں لگتی اور سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور آخر میں نقطے کی بات کہ موثر احتساب وہ ہوتا ہے جو محتسب کی ذات سے شروع ہو، خود احتسابی اسلام کا زریں اصول ہے جس پر عمل کر کے ہم اب بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024