یہ بات میں نے نہیں کہی جسٹس شوکت نے کہا کہ ’’کہنے کو یہ شہر اسلام آباد ہے مگر یہ شہر ایک قحبہ خانہ بن چکا ہے۔ بڑے عہدوں پر فائز افسران اور پولیس افسران ہر ایسے کام میں ملوث ہیں جو کسی شہر کو ناپسندیدہ بناتا ہے۔ 100 سے زیادہ ان افسران اور اہلکاروں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ ن کے طلال چودھر ی نے اس بات کو تسلیم کیا اور وضاحت کرنے کی کوشش کی جیسے یہ وضاحت نہیں کی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد کی حالت اتنی خراب نہیں ہے یعنی خراب ہے، اتنی خراب نہیں طلال چودھری بتائیں کہ خراب اور اتنی خراب میں کیا فرق ہے۔ اس شہر کی یہ حالت بنانے میں پولیس کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی بتایا جائے کہ کس شہر میں پولیس کا کردار کچھ مختلف ہے۔
پولیس افسران خاص طور پر لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال SSP کراچی رائو انوار ہیں، میڈیا پر چند دن پہلے جتنی خبریں رائو انوار کے حوالے آئیں اور ان کے بیانات بھی شائع ہوتے رہے سیاستدان بھی رائو صاحب پر رشک کرنے لگ گئے، پولیس ’’مقابلوں‘‘ میں 444 افراد مارے گئے، تقریباً یہ سارے مقابلے جعلی تھے۔ پولیس والوں نے سیدھے فائر کئے۔ اس مقابلے میں کسی پولیس والے کو زخم بھی نہ آیا۔ نقیب کے قتل کے حوالے سے بڑی باتیں ہوتی رہیں۔ نجی محفلوں میں کئی باتیں ہوئیں۔ کئی اشارے کئے جاتے ہیں۔ کھلم کھلا لوگوں نے ہمیشہ دل کی بھڑاس نکالی۔ ہماری پولیس سیاست میں بھی خوب محاذ آرائی کرتی ہے۔ ووٹ کا حقدار وہی سیاستدان ٹھہرتا ہے جو تھانے کچہری میں ووٹرز کی جائز ناجائز امداد کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امداد ناجائز کام کے لئے ہوتی ہے، ہمارے ہاں جائز کام کے لئے بھی اسی طرح کوشش کرنا پڑتی ہے جو ناجائز کام کے لئے کی جاتی ہے۔
پولیس والے اور بیورو کریٹس سمجھتے ہیں کہ اصل میں حکمران افسران ہی ہوتے ہیں۔ میں نے کئی سیاستدانوں اور ممبران اسمبلی کو دیکھا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے افسران کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ اس طرح باتیں کرتے ہیں کہ لوگوں کے اصل نمائندے افسران ہی ہیں۔
رائو انوار کو ٹی وی چینلز پر اس طرح چلتے ہوئے دیکھا جیسے سب کچھ وہی ہو۔ میں نے ایک آدھ بار اسے وردی میں دیکھا ورنہ وہ عام کپڑوں میں ہوتا بلکہ خاص کپڑوں میں ہوتا۔ میرے خیال میں باوردی شخص کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔
میں پولیس والوں کے اتنا خلاف نہیں ہوں میں ان کی عزت کرنے کو فرض سمجھتا ہوں۔ وہ بھی لوگوں کی عزت کریں، جس کے لئے وہ تیار نہیں۔
سی سی پی او لاہور امین وینس اب یہاں نہیں مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئے ہیں وہ بہت اچھے انسان ہیں، لاہور میں امام کعبہ تشریف لائے، مجھے برادرم مولانا عبدالخبیر آزاد نے اور میرے دل کے بہت قریب ڈپٹی ڈائریکٹر اوقاف طاہر رضا بخاری نے بڑی مہربانی اور امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کی دعوت دی۔
میں نے دیکھا کہ سی سی پی او امین وینس میرے پاس ہی تھے ایک باوردی آدمی کو اس طرح ننگے فرش پر بیٹھے دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔ شائستگی اور کشادگی ان کے مزاج میں ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ابا محمد کرم داد خان انسپکٹر پولیس کے طور پر ریٹائر ہوئے جس کے لئے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ نے کہا تھا کہ ایسے لوگ بھولے سے اس محکمے میں آ جاتے ہیں۔
ایک دفعہ تھانہ خان گڑھ کے مضافات میں ایک نوجوان قتل ہو گیا تو ابا جی جائے وقوعہ پر گئے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ بوڑھی عورت گائوں کے بہت لوگوں کے درمیان اپنے گھر بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھی رو رہی تھی نوجوان بہت خوبصورت تھا۔ ابا ڈری سہمی اس بوڑھی ماںکے پاس بیٹھ کے رونے لگ گئے۔ بستی کے سب لوگ حیران رہ گئے درد مندی ہنر مندی میں پولیس والوں کو یکتا ہونا چاہئے۔
کسی علاقے میں تھانیدار ایک بادشاہ کی طرح ہوتا ہے اسے اپنے عہدے کو قابل اعتماد بنانا چاہئے۔ کمزور اور غریب لوگوں کے لئے یہ مقامات پناہ گاہ کی طرح ہونا چاہئیں۔
میں نے ایک دفعہ ایک جملہ کہا تھا جسے میرے دوست افسران نے بھی انجوائے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ یہ بیورو کریسی نہیں، برا کریسی ہے۔ اگر ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور ایک محکمے کا سیکرٹری سارے معاملات میں اچھا کرنے لگے تو یہ ملک جنت بن جائے۔
٭٭٭٭
عدالت نے نوازشریف اور مریم نواز کو قید کی سزا سنائی اور جرمانہ بھی کیا۔ جرمانے کے لئے پونڈز میں سزاسنائی جسے اکثر پاکستانیوں نے نہیں سمجھا۔ یہ جرمانہ روپوں میں بھی سنایا جا سکتا تھا۔اس پر فاطمہ قمر نے نوٹس لیا۔ قومی زبان کے لئے بہت خواتین و حضرات نے جدوجہد کی مگر فاطمہ قمر نے منفرد طریقے سے ایک ماحول بنانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ وہ ہر کسی سے قومی زبان اردو کی بات کرتی ہے اب یہ بات نئے سرے سے اٹھنے لگی ہے۔ ہم فاطمہ قمر کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ہر طرح کے تعاون کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں نوائے وقت کے کالم نگار عزیز ظفر آزاد کا مکمل تعاون فاطمہ قمر کو حاصل ہے۔ میں انگریزی کے خلاف نہیں ہوں۔ جو یہ زبان سیکھنا چاہتا ہے بے شک سیکھے مگر اسے سب لوگوں پر مسلط نہیں کر دینا چاہئے۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ اس سلسلے میں افسران ہی ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں نے اردو کو نہیں چھوڑا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024