19 جولائی 1947ء کا دن پاکستان اور کشمیر کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے عظیم مجاہد غازیٔ ملت سردار محمد ابراہیم خان کے گھر واقع سری نگر میں 59نمائندہ کشمیری زعماء نے ایک اجلاس منعقد کرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ یہ کشمیری عوام کی پاکستان سے محبت اور پاکستان پر اعتماد کی عکاس تھی۔ برطانوی حکومت کی جانب سے اگست 1947ء میں تقسیم ہندوستان کے وقت تمام ریاستوں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں‘ الحاق کر لیں۔ وادیٔ کشمیر چونکہ تاریخی و جغرافیائی‘ تہذیبی و ثقافتی‘ مذہبی و نظریاتی غرضیکہ ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ تھی اور اس میں 80فیصد مسلمان بستے تھے‘ لہٰذا مذکورہ زعماء نے کشمیری عوام کی دلی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ قرارداد منظور کی تھی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں کا ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرتا مگر اس ظالم اور بدنیت شخص نے 15اگست 1947ء کو دونوں میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ فی الحال الحاق نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ دراصل وہ لارڈ مائونٹ بیٹن‘ گاندھی اور نہرو کے زیر اثر تھا اور اکثریتی مسلمان آبادی کی خواہشات کے برعکس بھارت سے الحاق کا خواہشمند تھا۔ اس بدبخت کے ان مذموم عزائم کی راہ میں دورکاوٹیں حائل تھیں: ایک تو مسلمانوں کی کثیر آبادی آڑے آرہی تھی اور دوسرا بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے کوئی جغرافیائی جواز موجود نہ تھا۔ راجہ ہری سنگھ نے اس مشکل کا انتہائی بہیمانہ حل نکالا۔ اس نے ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کے لئے ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں کے ذریعے ان کا وسیع پیمانے پر قتل عام شروع کروا دیا۔ ان مظالم نے کشمیری مسلمانوں کے لئے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کی صورتحال پیدا کردی۔ چنانچہ میر پور‘ پونچھ‘ گلگت اور بلتستان کے مسلمانوں نے 22اکتوبر 1947ء کو ڈوگرہ حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کی انتہا سے پاکستانی عوام بھی تڑپ رہے تھے‘ لہٰذا ان کی حمایت اور امداد کے لئے پاکستان کے ہزاروں قبائلی مظفر آباد میں داخل ہوگئے۔ 27اکتوبر 1947ء کو یہ سرفروش قبائلی سری نگر سے صرف تین میل کی دوری پر رہ گئے تھے کہ مہاراجہ نے طے شدہ منصوبے کے مطابق بھارت سے امداد طلب کرلی جس کے لئے اس کی فوج پہلے ہی کیل کانٹے سے لیس تیار بیٹھی تھی۔ بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی باقاعدہ فوج سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتارنا شروع کر دی۔ دوسری طرف مائونٹ بیٹن نے ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے مشرقی پنجاب کے ایک مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کروا دیا تاکہ بھارت کو بذریعہ پٹھانکوٹ کشمیر تک رسائی حاصل ہو جائے۔ جذبۂ جہاد سے سرشار کشمیری عوام اور قبائلیوں کی یہ جدوجہد جب ریاست کے گلی کوچوں تک پھیل گئی تو پنڈت نہرو پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر خود اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں لے گیا اور عالمی برادری کے سامنے کشمیری عوام کی الحاق کے متعلق رائے جاننے کی خاطر استصواب رائے کرانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ مسئلہ کشمیر کو لٹکانے اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت سے محروم کرنے کی ایک چال تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے اندر جس شخصیت نے کشمیری عوام کے اس حق کی بڑی بیباکی سے مسلسل وکالت کی‘ وہ امام صحافت محترم مجید نظامی تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے نوائے وقت گروپ آف پبلی کیشنز کو کشمیر کاز کے لئے وقف کر رکھا تھا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی اُنہوں نے اسے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی ملی و قومی امنگوں کے ترجمان ادارے کی حیثیت عطا کردی تھی۔
ان کی انہی خدمات جلیلہ کی بدولت آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی انہیں ’’مجاہد کشمیر‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ادارہ انہی کے وضع کردہ رہنما اصولوں پر گامزن رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اجاگر اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے اس مسئلے کو بزور طاقت حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ ہندو بنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز اس نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ’’کشمیر حق خودارادیت کانفرنس‘‘ منعقد کی جس کے مہمان خاص صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ کانفرنس منعقد کرنے پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا شکریہ ادا کیا کہ جب پاکستان میں ہر طرف عام انتخابات کی گہما گہمی ہے تو اس قومی ادارے نے اس اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد ضروری سمجھا۔ اُنہوں نے حق خودارادیت کو تمام حقوق کا منبع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر اہم دستاویزات میں اس کا ذکر بڑے واضح انداز میں موجود ہے اور دنیا کا کوئی قانون کسی شخص کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ بھارت نہتے کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی ہی خلاف ورزی نہیں کررہا بلکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کے خلاف سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ اُنہوں نے 14جون 2018ء کو اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس آفس کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا جس میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایک بین الاقوامی انکوائری کمیشن کے قیام کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہوجاتا‘ تب تک خود پاکستان کا اپنا ریاستی تشخص اور حق خودارادیت نامکمل رہے گا۔ کانفرنس کے لئے تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محمد رفیق تارڑ نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان اور کشمیر کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیری عوام کی اخلاقی اور سفارتی امداد ہمارا دینی و قومی فریضہ ہے۔ کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ چیف جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان‘ مجیب الرحمن شامی‘ افتخار علی ملک اور مولانا محمد شفیع جوش نے اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر جسٹس(ر)سید شریف حسین بخاری‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان‘ بیگم صفیہ اسحاق‘ مرزا محمد صادق جرال‘ فاروق خان آزاد اور عزیز ظفر آزاد بھی موجود تھے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے کانفرنس کی نظامت کے فرائض نبھاتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا پرچار جاری رہے گا۔ اُنہوں نے مجیب الرحمن شامی کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو قرار دادوں کی صورت حاضرین کے سامنے رکھا جن میں میاں محمد شہباز شریف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر ہمیشہ جماعتی سیاست سے بالاتر رہا ہے‘ اس لئے یہ تینوں رہنما ایک مشترکہ بیان جاری کریں جس میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کا اعادہ ہو۔ دوسری قرارداد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک انتہائی قابل اور مسئلہ کشمیر کی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت کو کشمیر پر اپنا نمائندہ مقرر کرے جو دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے حق میں لابی کرے۔ حاضرین نے دونوں قراردادوں کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ کانفرنس کے دوران نظریاتی سمر سکول کے بچوں نے کشمیر کے حوالے سے ایک ملی نغمہ بھی پیش کیا اور سردار مسعود خان اور دیگر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ کانفرنس کے اختتامی لمحات میں ممتاز صنعت کار افتخار علی
ملک نے اپنے والد محمد شفیع ملک مرحوم کی خود نوشت ’’یادِ ایام‘‘ سردار مسعود خان کی خدمت میں پیش کی۔ صدر آزاد جموں و کشمیر نے پروفیسر ڈاکٹر پروین خان کے ہمراہ نظریاتی سمر سکول کے طلبا و طالبات کے تیار کردہ فن پارے بھی ملاحظہ کئے اور طلبہ کی کاوشوں کو سراہا۔ کانفرنس کے اختتام پر مولانا محمد شفیع جوش نے جدوجہد آزادیٔ کشمیر اور پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے دعا کرائی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024