;جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن‘ عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہے کہ کون سے شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملے سے منسلک کرتے ہیں، ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، یہ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے کہ کیس ہم سنیں یا احتساب عدالت کو بھجوائیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رائے دستاویزات پر منحصر ہے یا نہیں ؟ جے آئی ٹی رپورٹ میں اسحاق ڈار پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کا پورا انحصار قطری خط پر ہے، آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ تمام کاغذات موجود ہیں، فلیٹس کی ملکیت چھپانے کےلئے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پوچھ پوچھ کر تھک گئے کون لندن فلیٹس کا مالک ہے کوئی نہیں بتاتا، خواجہ حارث نے کہا کہ بتایا تو ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے نیب کی فائل بند ہونے کے موقف پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کےا ہم سارے معاملے پر آنکھیں بند کر لیں؟، پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہوگا، اسحاق ڈار کو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کئے؟، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی، فنڈز سعودی عرب، دبئی یا قطر میں تھے، سوال یہ ہے کہ فنڈز کیسے لندن پہنچے؟، منی ٹریل کہاں ہے؟، سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہو گئے جبکہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن آج بھی دلائل جاری رکھیں گے جبکہ حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ آج دلائل دیں گے۔ خواجہ حارث نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی کو دیا گیا بیان پڑھ کر سنایا اور عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کے ڈکلیئرڈ اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں، وزیراعظم سے کسی اثاثے کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا اور جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے رشتے داروں نے کوئی جائیداد چھپائی اور نہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد ہے جبکہ نیب قوانین کے مطابق شوہر یا والدکو بیوی بچوں کے نام اثاثوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جاسکتا جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سوال 1993ءسے اثاثے زیر استعمال ہونے کا ہے، مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی اور قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خودکسی پراپرٹی کے مالک ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم کا کوئی بے نامی دار ہے جبکہ کوئی اور دستاویز، گواہ نہیں کہ نوازشریف کے فلیٹ بے نامی دار کے زیر استعمال رہے۔ خواجہ حارث نے مزید کہا کہ لندن فلیٹس کا جے آئی ٹی نے نہیں کہا اس کے اصل مالک وزیراعظم ہیں لیکن نام کسی اور کے ہیں۔ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا ان کے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے، عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینی فشل مالک ہیں۔ خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق پوچھا تھا، وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی تاہم تفصیلات کا علم نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق نتائج بھی اخذ کئے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج اخذ کیے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے جواب دیاکہ رپورٹ کی جلد نمبر 4 میں شریف فیملی کے لئے کافی خطرناک دستاویزات موجود ہیں، میرا اشارہ ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ میاں شریف ہی اپنی زندگی میں تمام معاملات سنبھالتے تھے، جے آئی ٹی نے کہا کس کو کتنا شیئر ملنا ہے، فیصلہ میاں شریف کا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں، وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاﺅں گا کہ کہاں سے فلیٹ لئے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے کہا وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں، یہ فرض کرلیں کہ یہ میاں شریف کے ہیں تو کچھ شیئر تو نواز شریف کا بھی ہو گا۔ جسٹس عظمت نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رائے دستاویزات پر منحصر ہے یا نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا وزیراعظم1990ءمیں کاروبار سے الگ ہوچکے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ بات سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں، جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا دیکھنا ہے کہ کوئی شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملے سے منسلک کرتے ہیں یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلے کا اختیار ہے، آپ کو تمام پتے شو کروانے چاہئے تھے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کو عدالت کا اختیار نہیں سونپا تھا، کسی بھی تفتیشی ادارے کی تحقیقات کو ٹرائل سے گزرنا ہوتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وضاحت کےلئے یہ فورم نہیں، جے آئی ٹی نے تمام امور سے اسحاق ڈار کو جوڑا ہے تو وہ ٹرائل کورٹ میں جواب دیں، وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلے ہم مریم، حسن اور حسین کے وکیل کو سننا چاہتے ہیں جس پر ان کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ کچھ ریکارڈ رات کو موصول ہوا ہے جو آج یا کل جمع کرادوں گا، بعدازاں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے دلائل کا آغاز کیا، طارق حسن کے دلائل کے آغاز میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا آپ کے پاس تیاری کا بہت وقت تھا، امید ہے آپ زیادہ وقت نہیں لیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے اسحاق ڈار کے وکیل سے استفسار کیاکہ کیا اسحاق ڈار پر ٹیکس گوشوارے نہ دینے کا الزام تھا؟، جس پر طارق حسن نے موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگ میں گوشوارے جمع نہ کرانے کا الزام لگایا، اسحاق ڈار کے خلاف کوئی براہ راست الزام نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کو تو کم ازکم ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔ طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں۔ گلف سٹیل ملز میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام ٹرانزیکشنز ہیں، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے جس پر ان کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پانامہ کیس کے عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ دیکھیں درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا ہے؟، اس وقت نااہل نہیں کر سکتے تھے اس لئے مزید تحقیقات کےلئے جے آئی ٹی بنائی۔ اسحاق ڈار کے وکیل نے اپنے موقف میں کہا کہ نیب نے فائل بند کر دی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم سارے معاملے پر آنکھیں بند کر لیں؟، پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہوگا، اسحاق ڈار کو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے، کیا جب معافی ختم ہو گی تو معاملہ دوبارہ بحال نہیں ہو گا؟، جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ کیا آپ کا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں کردار نہیں؟‘ اگر آپ کا کردار نہیں تو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں‘ ہل میٹل کا ایشو ابھی بھی زندہ ہے‘ ہم آپ کے نکات نوٹ کر لیتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے کہاکہ ایسی کوئی دستاویز نہیں کہ نوازشریف فلیٹوں کے مالک ہیں۔ لیکن مالک کون ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن کا الزام نہیں۔ نوازشریف پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام بھی نہیں۔
سپریم کورٹ