میانوالی مظفر گڑھ روڈ پر بڑھتے ٹریفک حادثات
میانوالی، مظفر گڑھ شاہراہ جو ایم ایم روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔یہ سڑک شیر شاہ سوری کے دورِ حکومت میں د و قدیمی ضلعوںکے آپس میں مواصلاتی رابطہ قائم کرنے کیلئے قریباً ڈیڑھ سو سال قبل تعمیر کی گئی۔یہ نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ پاکستان بھر کی اہم اور مصروف ترین قومی شاہراہ ہے۔پاکستان نیٹو کا اہم اتحادی ہونے کی بنا پر امریکہ کا سامانِ حرب اسی راستہ کے ذریعے افغانستان جاتا رہا۔کراچی ،لاہور ،پشاور،گلگت،سمیت خیبر پختونخواہ ،بلوچستان،سندھ کے دور دراز کے علاقوں کو جانے والی گاڑیوں کی پبلک ٹرانسپورٹ کی گذر گاہ ہونے کی بنا پر چوبیس گھنٹے شاہراہ پر ٹریفک کا دباو¿ رہتا ہے۔وہیکلز رش کی بنا پر سڑک کی وسعت انتہائی کم ہے۔جس سے روزانہ کی بنیاد پر خونی حادثات کی خبریں دلوں کو افسردہ کر رہی ہیں۔آبادی اور ٹریفک بڑھنے سے روڈ پر ہمہ وقت بے ھنگم ٹریفک سے گاڑیوں کے خوف ناک ٹکراو¿ سے شہری موت کا شکار ہو رہے ہیں۔اس شاہراہ کاروڈایکسیڈنٹ سالانہ ڈتھ ریٹ تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ہیڈ تریموں پل زیر تعمیر ہونے سے اپر پنجاب کو جانے والی گاڑیاں بھی اسی سڑک کو استعمال کر رہی ہیں۔ٹریفک کی لمبی لمبی قطاروں میں اور ٹیک کرنا دشوار پر خطر ہو جاتا ہے۔مقامی ٹریفک موٹر سائیکل،رکشے جب سڑک پر نکلتے ہیں تو سڑک گھنی ٹریفک کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ماضی میں صبح کے وقت مقامی افراد کاروبار ،دفتروں پر جانے اور سٹوڈنٹس کا شہروں میں سکول کالجز جانے کے دوران سڑک پر ٹریفک اور بے ڈو ل ہونے کی بنا پر حادثات کی نذر ہوکر جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔جس میں ماضی قریب میں فتح پور کے قریب ہونے والا سٹو ڈنٹس وین حادثہ ہے جس میں سات طالب علم اس خونی سڑک پر جامِِ شہادت نوش کر گئے اس موقع پر لیہ کے ڈی سی نے فوری ڈبل اور دو رویہ کروانے کی یقین دہانی کروائی مگر وہ بھی روایتی وعدہ ثابت ہوا۔ عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید خان دستی بھی روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعزیت کے موقع پر آواز قومی اسمبلی اٹھانے کا اعلان کر چکے لیکن تا حال بے معنی ہیں۔محکمہ ہائی وے نے بھی کبھی اس کی حالتِ زار پر سُدھ بُدھ لی نہ اسے وسعت اور دو رویہ کرنا درخورِ اعتنا سمجھا۔بعض معاملات فوری حل طلب ہوتے ہیں جس میں ذرا سی بھی تاخیر پر نتائج خوف ناک بھیانک انجام کی طرف سپیڈ لگا لیتے ہیں بد قسمتی سے یہ سڑک بھی انہیں میں سے ایک ہے جس پرپے در پے وقوع پذیر ہونے والے واقعات گھروں سے اُٹھنے والی نعشیں صاحبِ اقتدارکے ضمیروں کو نہ جھنجوڑ سکیں۔ یہ سڑک میانوالی،مظفر گڑھ ضلعوں سے بننے والے مزید دو اور ضلعے لیہ اور بھکر کے مصروف ترین شہروں اور اڈوں میں سے گذرنے کی بنا پران علاقوں میں ٹریفک کا بہاو¿ لاہور کی اندرون شہر کی ٹریفک کے منظر کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔سڑک پر قائم درجن کے قریب ٹال پلازوں پر ان گاڑیوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر ریونیو اکھٹا ہوتا ہے۔ٹریفک حاثات کے بڑھتے رجحان اور عوامی ضرورت واہمیت کے پیش نظر ہر قومی الیکشن کو موقع پراپنے اپنے سڑک گذرنے والے علاقوں کے امیدواروں کے ایجنڈے اور منشور میں اس کو وسعت اور دو رویہ کرنا ترجیحی بنیادوں پرشامل ہوتا ہے مگر بعد بھی دیگر وعدوں کی طرح یہ بھی فرضی ،وقتی ،ڈھونگ اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو ثابت ہوتا ہے۔عوام پھر اگلے پانچ سال کے انتظار میں یہ کہ کر بیٹھ جاتے ہیںوو¿ٹ لینے آئیں گے تو دو ٹوک بات کریں گے مگر ہوتا پھر وہی ہے جو پہلے ہوا تھا یوں یہ سلسلہ گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری ہے۔کئی علاقوں میں تو سڑک کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ، ناہموار اور آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہی ہے،منٹوں کا سفر گھنٹوںپر محیط ہو جاتا ہے گاڑیوں کی تیز رفتاری کی متحمل نہیں۔افسوس ناک پہلو ہے کہ حالیہ بجٹ میں بھی اس کی وسعت اور ون وے کرنے کے لئے فنڈ مختص نہیں کئے گئے۔یہ یقینا حکومت کا جنوبی پنجاب کے مکینوں سے سلوک سوتیلی ماں سے کم نہیں۔آئے دن روڈ ایکسیڈنٹ سے نہ صرف انسانی بلکہ عوامی و قومی نقصان بھی ہو رہا ہے۔سڑک کوسی پیک روٹ میں شامل کرنے کی متوقع منصوبے اور حکومتی ارادہ سے سڑک کو عالمی معیار نصیب ہونے میں جنوبی پنجاب کے مکینوں میں خوشی لہر دوڑی تھی مگر روٹ انڈس ہائی وے پر منتقل ہونے سے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔روڈ کو ڈبل اور دو رویہ ہونے سے نہ صرف حادثات میں خاطر خواہ کمی سے انسانی زندگیوں کو تحفظ مل پائے گا بلکہ جنوبی پنجاب کی ترقی میں سنگِ میل ثابت ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭