چوہدری نثار علی خان اور وکلا بار کا کردار
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پا نامہ کا کیس قانونی نہیں سیاسی ہے مگر اب یہ قانونی کیس بن چکا ہے یہ سچ ہے جب تک کسی پر الزام یا الزامات ثابت نہ ہو جائیں ، اسے مجرم نہیں کہا جا سکتا ۔ ابھی تک میاں نواز شریف پر جو الزامات ہیں لہذا وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ایسے مطالبے سے ملک کی بد نامی ہو رہی ہے۔ معشیت تباہ ہو رہی ہے ۔ایسا کرنے سے دہشت گرد وں نے سر اٹھا نے شروع کر دیا ہے ، دشمن گولیاں بر سا رہا ہے۔فوجی شہید ہو رہے ہیں ۔ وزیراعظم کو پانامہ کے علاوہ بھی حکومتی کام کرنے ہوتے ہیں ۔جو اسے کرنے نہیں دئے جا رہا ۔ سی پیک کو مکمل کرنا ابھی باقی ہے۔اپنے آپ کو دیکھیں ملکی حالات کو دیکھیں پھر کوئی مطالبہ کریں۔ کیس عدالت میں ہے ۔عدالت کو فیصلہ کرنے دیجئے ۔ لیکن اور تو اور جو قانون کو جانتے ہیں اور وکلا کے نمائدے ہیں وہ بھی وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ وکلا اپنے بار کے نمائدوں کو اس لئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ اپنی سیاسی دوکان چمکائیں اور سیاسی پارٹیوں کی وفاداریاں نبھائیں ۔ وکلا نمائدوں کو یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ اپنے وکلا ساتھیوں کو عدالتوں میں جانے سے روکیں اور ان کی بار ممبر شپ خارج کر یں۔ جب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ تین رکنی بنچ میں سنی جا رہی ہے ۔کمرہ عدالت میں ایسے سیاست دان دیکھنے کو ملے جھنیں سنائی نہیں دیتا دکھائی نہیں دیتا ،جو کہتے رہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ اسمبلی میں ہونا چاہیے تھا ۔وہ بھی اب کیس سننے آتے ہیں اور خوش دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ اب یہ بنچ نواز شریف کو صادق اور امین کا فیصلہ دے کر فارغ کر دیگا ۔ اگر یہ سب اپنے اپنے گریبان میں جانکھیں گے تو ان کی ضمیر اگر زندہ ہے تو پکار کر ان سے کہی گی آ پ بھی صادق اور امین نہیں ہیں ۔اگر کہا جائے کہ دنیا ساری میں چراغ لے کر صادق اور امین تلاش کرنے نکلیں گے تو کوئی بھی نہیں ملے گا۔اس بنچ کے ججز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسمبلی میں پھر کوئی بھی نہیں بچے گا۔ آئین میں یہ لکھ کر ہم سب گناگار ہو رہے ہیں۔ لہذا اس کے خاتمے کےلئے کوئی حل نکالیں۔ ,17,18,19جولائی بروز پیر ،منگل،بدھ اور آج بھی تین رکنی بنچ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کررہا ہے۔پہلے روز عمران خان کے وکیل نعیم بخاری ، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف ، شیخ رشید نے اپنے اپنے دلائل دئے ۔اس کے بعد وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دئے پھر مریم نواز ،حسن نواز ،حسین نواز اور اسحاق ڈار کے وکلا بھی اپنے اپنے دلائل دیں گے ۔اس کے بعد جج صاحبان کسی نتیجے پر پہنچ پائیں گے ۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں اور وکلا تنظیموں کا وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرناغیر آئنی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ۔ پنجابی میں کہتے ہیں دوجیا ں دی ویوار گرا دو باوے خو د ہی تھلے آجاﺅ( مطلب: دوسرے کی دیوار گرادو چاہے خود ہی اس کی زد میں آجاﺅ) ۔اپوزیشن جماعتیں اس پر عمل کرتی دکھائی د ے رہی ہیں ۔ کمرہ عدالت میں بد انتظامی انتہا کو ہے ۔ کمرہ عدالت میں ایک سیاسی جماعت کے سربرہ اپنے حواریوں کرسیوں پر پہلے سے بٹھا رکھتے ہیں ۔ پھر اپنی مرضی سے شخصیات کو بٹھانا شروع کر تے ہیں ۔ ایسا کرنے سے وزرا وکلا اور لا آفیسر عدالت میں کھڑے رہتے ہیں ۔ پہلے روز جج صاحبان نے خواجہ حارث سے پوچھا کیاآپ اپنی مرضی سے کھڑے ہیں ۔کہا جناب بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ جس پر کسی وکیل کو اٹھا کر آپ کےلئے جگہ بنائی گئی ۔ عدالت کی پہلی صف میں اکثر لوگ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں یا ڈرائنگ روم میں ۔جب سے پانامہ کا کیس سنا جانے لگا ہے ۔ تبصرے جاری ہیں آجکل ایک تبصرہ وزیر چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں ہو رہا ہے ۔ چوہدری نثار علی خان کا شمار ن لیگ کے بانی ورکروں میں ہوتا ہے ۔ چوہدری صاحب ہر اچھے برے وقت میں جماعت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ راقم کے چوہدری نثار علی خان سے کوئی رابطے نہیں نہ کبھی ملاقات کا شرف ملا لیکن چوہدری صاحب اپنے اچھے کردار کی وجہ سے میرے آئیڈیل ہیں اعتزاز احسن نے دھرنوں کے دوران جب اسمبلی میں جس انداز سے چوہدری نثار علی کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ میں تقریر کی وہ اچھا نہ لگا تھا اور راقم نے اس پر کالم بھی لکھا تھا ۔آج بھی کچھ لوگ چوہدری نثار علی اور میاں نواز شریف کے درمیان خلیج پیدا کر نے کی کوششیں کر رہے ہیں جو قابل افسوس ہے ۔بعض غیر سیاسی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر وہ مشورہ ہر وہ بات پارٹی میں کرنی چائیے جو پارٹی قیادت کو اچھی لگے خواہ وہ مشورہ اور بات پارٹی کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو ۔ ایسی سوچ غلط ہے ۔ اگر آپ اپنی جماعت اور پارٹی قیادت کے خیر خواہ ہیں تو مشکل گھڑی میں جھوٹ سے نہیں سچ سے کام لیں ۔بات اگر کڑوی ہے اور فائدے کی ہے تو ضرور منہ پر کریں ۔ رشتوں کی کمزوری اور مضبوطی کا پتہ ہی مشکل گھڑی میں لگتا ہے انسان وہ بڑا ہوتا ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرے ۔ یہ خوبی میاں نواز شریف میں ہے ۔ اس بات کا عملی مظاہرہ راقم نے اس وقت دیکھا جب سپریم کورٹ کے سابق صدر یاسین آزاد کی سربراہی میں سپریم کورٹ بار کا وفد میاں نواز شریف سے ملنے گیا ۔ بار کے اس وفد میں راقم بھی شامل تھا ۔ میاں نواز شریف کے وفد میں میاں شہباز شریف ، چوہدری نثار علی خان ، چوہدری نصیر بھٹہ ایڈووکیٹ اورانوشہ رحمان شامل تھے۔ میاں نواز شریف نے یاسین آزاد کا ہاتھ پکڑ کر کہا یاسین آزاد صاحب میں معذرت خواہ ہوں کہ بار الیکشن میں مسلم لیگ ن کے حامی وکلا نے آپ کو ووٹ نہیں دئے تھے جب سے آپ صدر منتخب ہوئے ہیں ۔مجھے کئی بار میڈیا پر آپ کو سننے کا موقع ملا ہے۔اب میری اور میرے ساتھیوں کی خواہش ہے کہ آپ مسلم لیگ ن میں شامل ہوں لیکن یاسین آزاد نے کہا میں بار کا صدر ہوں ایسا کرنا میرے لئے ابھی ممکن نہیں ہے ۔ یاسین صاحب نے پھر راقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نام لیکر کر کہا یہ پہلے پی ٹی آئی میں تھے جس پر میاں صاحب نے کہا ہمیں خوشی ہو گی کہ یہ ہماری جماعت کو جائن کریں ۔وہاں پر موجود تمام وکلا کو میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن میں جوائین کرنے کو کہا ۔ میاں نواز شریف کا یاسین آزاد سے معذرت کرنا راقم کو اچھا لگا اور اسی موقع پر سب کی موجودگی میں راقم نے مسلم لیگ ن کو جوائین کر نے کا اعلان کیا تھا۔ راقم کے سیاسی استاد محترم معراج محمد خان اکثر اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ اصولوں کی سیاست کرنا ۔ اس سبق پر عمل جاری ہے۔اختلاف رائے کرنا جمہوریت کا حسن ہے۔احمد فراز یاد آگئے
ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنا رکھا ہے