برصغیر کی تیسری بڑی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس جو کشمیریوں کی سوادِ اعظم بھی ہے اس کی تحریک اور مطالبے پر مہاراجہ کشمیر نے ریاست جموں و کشمیر کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب 1934ءمیں کروائے۔ جس میں مسلمانوں کیلئے 34 نشستیں مختص کی گئیں۔ 21 نشستوں پر انتخابات کروائے گئے اور 13 نشستوں پر نامزدگیاں کی گئیں۔ انتخابات میں مسلم کانفرنس نے 21 میں سے 14 نشستیں حاصل کیں۔ 1938ءکے انتخابات میں 21 میں سے 19، 1939ءکے انتخابات میں 21 میں سے 21 اور 1947ءکے انتخابات میں 21 میں سے 16 نشستیں حاصل کیں۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1944ءمیں سری نگر کے مقام پر حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مسلم کانفرنس کے بارہویں سالانہ اجلاس سے خطاب فرمایا۔ چودھری غلام عباس نے قائداعظمؒ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔ حضرت قائداعظمؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا میں چودھری صاحب اور مسلمانانِ ریاست جموں و کشمیر کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمات ان کے قدموں میں ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت قائداعظمؒ نے یہ تقریر اردو زبان میں کی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت قائداعظمؒ کے دل میں اسلامیانِ جموں کشمیر کیلئے کتنی تڑپ موجود تھی۔ حضرت قائداعظمؒ جذباتی تو تھے نہیں کہ وہ جذبات کی رو میں ایسا اہم فقرہ کہہ ڈالتے۔ حضرت قائداعظمؒ نے اسی فقرے پر اپنی تقریر ختم کر دی۔ اسلامیانِ ریاست جموں و کشمیر کی سوادِ اعظم جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے بھی اپنا حق ادا کر دیا۔ اورپاکستان بننے سے 26 روز قبل 19 جولائی 1947ءکو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کے سری نگر میں منعقدہ اجلاس میں متفقہ طور پر قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کی۔ جس کا متن حسب ذیل ہے۔
1۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس قرارداد کے ذریعے قیام پاکستان پر اپنے اطمینان قلبی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے قائداعظمؒ کو اپنی مبارکباد پیش کرتی ہے۔
2۔ برصغیر کی ریاستوں کے عوام کو اُمید تھی کہ وہ برطانوی ہندوستان کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش قومی آزادی کے مقاصد کو حاصل کریں گے اور تقسیم ہندوستان کے ساتھ جہاں برطانوی ہندوستان کے تمام باشندے آزادی سے ہمکنار ہوئے وہاں 3 جون 1947ءکے اس اعلان نے برصغیر کی نیم مختار ریاستوں کے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور جب تک یہ مطلق العنان حکمران وقت کے جدید تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں گے ہندوستانی ریاستوں کے عوام کا مستقبل بھی بالکل تاریک رہے گا ان حالات میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے سامنے صرف تین راستے ہیں۔ (i) ریاست کا بھارت سے الحاق، (ii) ریاست کا پاکستان سے الحاق، (iii) کشمیر میں ایک آزاد و خودمختار ریاست کا قیام۔
مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی، اقتصادی، لسانی و ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان کیساتھ الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا 80 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گذرگاہ پنجاب ہے کہ منبع وادی¿ کشمیر میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ یہ کنونشن مہاراجہ کشمیر سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو داخلی طور پر مکمل خودمختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کا آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کریں اور دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کے محکمے پاکستان دستور ساز اسمبلی کے سپرد کئے جائیں۔ کنونشن یہ قرار دیتا ہے کہ اگر حکومت کشمیر نے ہمارے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے اور مسلم کانفرنس کے اس مشورے پر کسی داخلی یا خارجی دباﺅ کے تحت عمل نہ کیا گیا اور ریاست کا الحاق ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے ساتھ کر دیا گیا تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024