لطف و کرم
مجھ پہ لطف و کرم ہزار کرے
پھر جو چاہے جان نثارِ کرے
آرزو ہم کو مزاجِ یار سے
مجھ کو اپنوں میں وہ شمار کرے
عشق جس کو اسیر کر لے وہ
فکرِ درویش اختیار کرے
دور ہو جائے گی غلط فہمی
وہ اگر مجھ پہ اعتبار کرے
نا مکمل ہے آدمی تب تک
عشق,جب تک نہ اس پہ وار کرے
طول دے کر مری محبت کو
فاصلوں کا وہ اختصار کرے
اس سے کہنا کہ اپنی خفگی سے
وہ مرا دل نہ تار تار کرے
دوسروں کو پکارنا کیونکر
آدمی خود پہ انحصار کرے
غم کی بھر مار کا تقاضہ ہے
آدمی آدمی سے پیار کرے
(منزہ سیّد )